ساڑھے بارہ لاکھ خاندانوں کیلیے فی کس تین ہزار روپے کا مریم نواز راشن کارڈ جاری کیا گیا ہے، فائل فوٹو
ساڑھے بارہ لاکھ خاندانوں کیلیے فی کس تین ہزار روپے کا مریم نواز راشن کارڈ جاری کیا گیا ہے، فائل فوٹو

پنجاب میں راشن کارڈ اسکیم سے دکانداروں کی چاندی

نواز طاہر:
پنجاب حکومت کی جانب سے محنت کشوں کی مالی معاونت کیلئے جاری کیے گئے راشن کارڈ اسکیم کو دکانداروں نے کمائی کا ذریعہ بنالیا۔ کوئی دکاندار راشن کے اضافی نرخ لگا کر مخصوص پیکیج بنا رہا ہے تو کوئی اپنی مرضی سے سروس چارجز کی مد میں تین سو سے پانچ سو روپے کاٹ رہا ہے اور مزدوروں کو پوری رقم ادا نہیں کررہا۔ جس سے مزدور اضطراب کا شکار ہیں اور جھگڑے شروع ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے مہنگائی اور محنت کشوں کی مشکلات کے پیشِ نظر ان کی مالی معاونت کیلئے راشن کارڈ جاری کیے ہیں۔ جن سے انہیں ماہانہ تین ہزار روپے جاری کیے جارہے ہیں۔ حکومتی اعلان کے مطابق صوبے کے ساڑھے بارہ لاکھ خاندانوں کی معاونت کیلئے یہ کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے سوشل سیکیورٹی کے قانون میں ترمیم کرکے یہ کارڈ جاری کیے۔

اس ترمیم کے تحت حکومت سیکیورڈ پرسنز (محکمہ سوشل سیکورٹی کے رجسٹرڈ صنعتی کارکن) کو سوشل سیکورٹی کے فنڈز دستیاب ہونے کی صورت میں ان کی مالی معاونت کرسکتی ہے۔ لیکن ان راشن کارڈوں پر پوری رقم کی ادائیگی کے بجائے کٹوتی کرنے کی محنت کشوں کی شکایات عام ہوگئی ہیں۔ تاہم راشن کارڈ کی تین ہزار روپے کی پوری رقم ادا نہ کرنے والوں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ البتہ اس ضمن میں محکمہ سوشل سیکورٹی کو مطلع کیے جانے کی اطلاع ملی ہے۔

اس اسکیم کے تحت جن کارکنوں کو یہ کارڈ جاری کیے گئے، ان کے صنعتی یونٹوں اور یونینوں کو دکانوں اور اسٹوروں کی ایک لسٹ بھی فراہم کی گئی ہے۔ تاکہ وہ آسانی سے قریبی اسٹور یا دکان سے اس کارڈ کو کیش کرواسکیں۔ جنہیں پنجاب بینک ادائیگی کرے گا۔ لاہور اور شیخوپورہ اضلاع میں کام کرنے والے صنعتی کارکنوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں ان کارڈوں پر پوری ادائیگی نہیں کی جاتی۔ دکاندار اور فرنچائز اس سے تین سو سے پانچ سو روپے منہا کر رہے ہیں۔

شاہدرہ اور لاہور شیخوپورہ روڈ (دونوں اضلاع کی حدود میں) مریم نواز راشن کارڈ ہولڈر صنعتی کارکنوں کی نمائندگی کرتے ہوئے لیبر فیڈریشن کے صوبائی نائب صدر عبید گجر نے ’امت‘ کو بتایا کہ رواں ماہ اگست کے پیسے ابھی بینک کی طرف سے جاری نہیں ہوسکے اور انہیں یہ بات بھی فرنچائزز ہی بتاتے ہیں۔ جبکہ وہ کارڈ ہولڈر کو پوری رقم ادا کرنے کے بجائے ڈھائی ہزار سے ستائیس سو روپے ادا کرتے ہیں اور رسید تین ہزار روپے کی وصولی کی جاری کرتے ہیں۔ پوچھ گچھ کی جائے تو انہیں بائیو میٹرک کا بہانہ کرکے واپس لوٹا دیتے ہیں۔ لیکن پانچ سو روپے کاٹنے پر یہ بہانہ ختم کردیا جاتا ہے۔

محنت کش دفاتر کے چکر لگانے اور وقت کے ضیاع کے خوف سے مجبوراً انہیں یہ رقم ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ دکانداروں اور اسٹور مالکان نے کارڈ ہولڈروں کیلئے راشن کے مخصوص پیکیج بھی بنا رکھے ہیں۔ جن پر بازار کی نسبت اشیا کی قمیتیں بھی زائد ہیں۔ ان کے مطابق کارکنوں کے اپنے پیسے ہی حکومت انہیں دے رہی ہے۔ لیکن درمیان میں اس رقم کو ’چوہے‘ کتر رہے ہیں۔ مریم نواز راشن کارڈ ہولڈرز کو نقد ادائیگی یا راشن دینے کے مجاز اسٹوروں کی جاری لسٹ میں سے ایک دکان کے مالک محمد اقبال چودھری (شاہدرہ لاہور) نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حکومت نے ابھی تک سروس چارجز مقرر نہیں کیے اور نہ ہی کوئی ہدایت کی ہے۔

ہر دکاندار اپنی مرضی سے پیسے کاٹ رہا ہے۔ کوئی دو سو، کوئی تین سو کاٹ کر سودا بھی بیچ رہا ہے اور نقد بھی ادا کر رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ بینک والوں نے کتنے پیسے سروس چارجز لینے ہیں اور ہمیں کتنے ملنے ہیں۔ ایک سوال پر محمد اقبال چوھدری نے بتایا کہ ’’یہ سورس فراہم کرنے کیلئے ہم نے کوئی درخواست نہیں دی۔ بلکہ یہ لسٹ حکومت نے خود مرتب کی تھی۔ اس سے پہلے حکومت نے جب احساس پروگرام شروع کیا تھا تو خود ہی سروے بھی کیا تھا۔ اس سروے کے دوران جن دکانوں اور اسٹوروں کو منتخب کیا گیا تھا، اب بھی انہیں ہی منتخب کیا گیا ہے‘‘۔

اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ راشن کارڈ رکھنے والے اپنی مرضی سے چاہیں تو نقد رقم حاصل کرلیں اور چاہیں تو راشن لے لیں۔ اس میں ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ ایک ہی وقت میں تین ہزار کا راشن خریدے یا کم قیمت کا راشن خریدے۔ ویسے بھی اتنی کم رقم میں مینگائی کے اس دور میں راشن آتا ہی کتنا ہے۔ اگر گھی آٹا چینی لے لی جائے تو یہ رقم پوری ہوجاتی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا ’’ہم نے راشن یا مخصوص اشیا کا کوئی مخصوص پیکیج نہیں بنایا‘‘۔