اِقبال میُونسپل لائبریری مری …. ہوٹل مافیا کے قبضے میں

تحرِیر : – امجد بٹ ۔ مری

دُنیا کی دس بڑی ترقّی یافتہ ریاستوں کا مجمُوعی جائزہ لیا جائے تو معلُوم ہوتا ہے کہ اُن کا تعلِیمی اور دفتری نِظام اپنی قومی زُبان میں ہے نِیز اُن ممالک میں کُتب خانوں یعنی لائبریریوں اور تعلِیمی اِداروں کو عِبادت گاہوں سے کم اہمیت نہِیں دی جاتی کِیُونکہ یہی تعلِیمی اِدارے اور لائبریریاں اُن عُلُوم کے ماخذ ہیں جو اُن قوموں کو دُنیا میں حُکمرانی کے قابل بناتی ہیں ۔ آج رُوس ، چِین ، امریکہ ، جرمنی ، فرانس ، کوریا ، جاپان اور ہندوستان وغیرہ کی حیران کُن ترقّی اِنہی لائبریریوں کی مرہونِ مِنّت ہے ۔ ذرا غور فرمائیں اِنڈیا میں 3,37017 اِنڈونیشیا 1,22,906، امرِیکہ 1,20,096 ، رُوس 1,13,981 ، چِین 1,09,673 ، جاپان 45,823 ، تُرکی 19,631 کُتب خانے ہیں ۔ پاکِستان میں کُل 9,106 لائبریریوں کا کیا حال ہے اُس کی ایک مجمُوعی جھلک علامہ اِقبال میُونسپل لائبریری مری کی صُورت میں دیکھی جا سکتی ہے جِسے برطانوی عہدِ حکُومت میں 1932ء میں قائم کیا گیا ۔ دراصل قوم پرست اور مُخیّر ہندُوؤں نے عزِیز شہِید روڈ پر نہرُو لائبریری کے نام سے اِس کی بُنیاد رکھی ۔ جب کہ 1944ء میں بلدیہ مری کے ماتحت آنے پر اس کا نام میُونسپل پبلک لائبریری رکھا گیا ، جسے 1956ء میں ڈپٹی کمشنر امان اللّٰہ خان نیازی کی ہدایت پر موجُودہ مقام پر مُنتقِل کِیا گیا ۔ 1967ء میں چیئرمین بلدیہ مری ، مُحمّد عارف نے اِسے اِقبال میُونسپل لائبریری کے نام سے موسُوم کیا ۔ یہاں مُستقِل قارئین قریباً 800 ہیں جب کہ روزانہ قریباً 200 افراد اِستفادہ کرتے رہے ہیں ۔ 25 ہزار سے زائد کُتب اِس لائبریری کا سرمایہ ہیں ۔
مری کی تعمِیراتی تارِیخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تارِیخی وَرثے کی حامِل جِتنی عمارات یا اِدارے پاکِستان خصُوصاً مری میں بنائے گئے ، وہ اُن لوگوں کی شبانہ روز محنتوں اور کاوِشوں کا نتیجہ ہیں جِنہیں ہم کافر اور دوزخی کہتے ہیں لیکن حضرت مُحمّد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمّت کے دعوے دار ہوتے ہُوئے ہم نہ صِرف اُن دوزخیوں کے بنائے ہُوئے اِداروں کو اپنا کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اِن کے مُقابلے میں صِرف ایسی اِنفرادی ملکیّت والی عمارات تعمِیر کر رہے ہیں جو صِرف حصُولِ زر کا ذریعہ ہیں ۔ نبئ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے درُست فرمایا تھا کہ ”ہر اُمّت کا ایک فِتنہ ہے اور میری اُمّت کا فِتنہ مال ہے “ اور ہم اس فِتنے میں اِس قدر دھنس چُکے ہیں کہ زر کے حصُول نے ہوس کا رُوپ دھار کر ہمارا دِین ، اِیمان اور غیرت سب داؤ پرلگا دِئیے ہیں مری کی ہوٹل اِنڈسٹری جِس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
1980ء کے بعد خالی جگہوں اور پُرانی عمارات پر قبضے کر کے سرکاری سرپرستی میں تجاوزات کو فروغ مِلنا شروع ہُوا تو مُلکی حُکمرانوں نے اپنے سیاسی نمائندوں کو ملکۂ کوہسار کا اَن داتا بنا ڈالا ۔ اِنتظامیہ بھی اپنی مرضی کی تعینات کی جاتی رہی ۔ اِنتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کی مِلی بھگت سے چند خاندانوں کی تو نسلیں سنور گئیں لیکِن مری جو کبھی ایک شہرِ بے مثال تھا ریت اور بجری کا پہاڑ بنتا چلا گیا ۔ قُدرتی مناظر کی جگہ کنکرِیٹ سے بنی فلک بوس عمارتوں نے لے لی ۔ مقامی سیاست دانوں اور بیورو کریٹوں نے اپنے سرمایہ دار تعلق داروں کو اس قدر نوازا کہ آج اہلِ مری کی سرِشت میں یہ چیز شامِل ہو چُکی ہے کہ جو خالی جگہ یا لاوارث عمارت دیکھو اس پر قبضہ کر کے ہوٹل بنا ڈالو ۔ کِسی سرمایہ دار نے ایسا تعلِیمی ادارہ یا ہسپتال بنانے کی کوشِش نہیں کی جِس کا معیار لارنس کالج و شفاء اِنٹرنیشنل ہسپتال جیسا ہو اور وہ صِرف غرِیبوں کے لیے ہو کِیُونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کے مُطابِق سرمایہ دار کے دِل سے سرمائے کی ہوس کم ہونا اُتنا ہی مُشکِل ہے جِتنا سُوئی کے ناک سے اُونٹ کا گُزرنا مُشکِل ہے ۔ ہوٹلوں کے بننے سے مالکان تو امِیر سے امِیر تر ہوتے چلے گئے لیکِن جِن لوگوں کو روزگار مِلا وہ صِرف ڈرائیور ، خانسامہ اور بیرے تک کا تھا ۔ کُچھ تو گاڑیوں کے پیچھے بھاگ کر حیوانوں کی طرح اِنسانیت کی تذلِیل کرتے رہتے ہیں اگر اِس شہر کو تعلِیمی شہر بنایا جاتا ، یہاں یُونِیورسٹیاں اور تجربہ گاہیں بنائی جاتِیں تو وطنِ عزیز کو جج ، سائنسدان ، پروفیسر ، عُلماء ، مُحقّق ، اساتذہ اور مُختلِف شعبوں کے ماہرِین مِلتے تو مُلک ترقّی کرتا لیکِن ہم نے بحیثیت قوم ضرُورت کے بجائے عیاشی کے اڈوں کو ترجِیح دی اور ہوٹل بنانے پر زور رکھا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ننانوے فِیصد ہوٹل مالکان کے بچّوں کو تعلِیم اور سائنس کے زیور سے محرُوم رکھا۔
2001ء میں مال روڈ پر آگ لگنے کے باعث اِقبال میُونسپل لائبریری جُزوی طور پر مُتاثر ہُوئی جِسے 2002ء اور 2004ء میں ناقص مٹِیریل سے دوبارہ تعمِیر کیا گیا تو مری اِنتظامیہ نے شوکت علوی کے خلاف کئی نوٹس بھی جاری کِیے ۔ فرِیقِ اوّل یعنی شوکت علوی وغیرہ نے تحرِیری معاہدے کے مُطابِق تعمِیرات درُست نہ کِیں اور نہ ہی زرِ ضمانت 16 لاکھ رُوپے جمع کروائے کِیُونکہ مری اِنتظامیہ لائبریری کی مُفت تعمِیر پر ہی پھُولے نہِیں سما رہی تھی لہٰذا فروری 2005ء میں برفانی طُوفان کے باعث لائبریری کی چھت کے بیم اور شہتِیر ٹوٹ گئے ۔ دراصل اِکیسوِیں صدی کے آغاز میں ہی کُچھ سرمایہ داروں نے مقامی اِنتظامیہ سے مِل کر اِقبال میُونسپل لائبریری والی بِلڈِنگ کو ناکارہ قرار دِلوایا اور گِرانے کے لیے نوٹس دِلوائے جِس کے بعد بِلڈِنگ گِرا کر نئی تعمِیرات شُرُوع ہُوئیں ۔ بظاہر سرکاری عمارت یعنی لائبریری لیکن حقیقت میں ہوٹل کی عمارت بنا دی گئی ۔
کئی سال تو لائبریری ٹی ایم اے دفتر میں لاوارث اولاد کی طرح زندہ رہی جہاں 14اگست 2001ء کو ناظمِین کی حلف برداری کروانے کے لیے کِتابوں کو رکاوٹ سمجھ کر ایک کمرے میں ڈھیر لگا دِئیے گئے جو انتظامیہ کی عِلم دُشمنی اور ہلاکو خان کے عملی وارث ہونے کا واضح ثبوت تھا ۔ اگر اُس وقت کے ایڈمِنِسٹریٹر احمد رضا شیخ (آج کے معرُوف تجزِیہ کار رضا رُومی) اور لائبریرین فرُّخ لطِیف بٹ کی حِکمتِ عملی اور کوشِشیں شامِل نہ ہوتِیں تو ٹی ایم اے کے افسران مری کا یہ عِلمی ورثہ اور سرمایہ ردّی میں بیچ چُکے ہوتے ۔
بِلڈِنگ مالکان نے لائبریری کی پرانی اُونچائی کے اندر رہتے ہُوئے زمِین کی کھُدائی کرنے کے ساتھ ساتھ منزلوں کی اُونچائی کم کردی اور 4 منزلوں کی جگہ 6 منزلہ عمارت بنا ڈالی ۔ نِیز ہوٹل مالکان نے لائبریری کے پِیچھے حکِیم عارف والی عمارت خرید کر لائبریری کی تعمِیر کی آڑ میں اِس پر دو منزلیں مزِید تعمِیر کر ڈالِیں اور موجُودہ ہوٹل کا باورچی خانہ وغیرہ لائبریری دفتر کے ساتھ بنا کر جُنُوب مشرِق کا سارا قدرتی منظر صفحۂ ہستی سے مِٹا ڈالا ۔ اِس سارے عرصہ میں نہ صِرف اِنتظامیہ جاگ رہی تھی بلکہ ساتھ ہو کر کام کروا رہی تھی لیکِن جب افسرانِ اعلیٰ نائب ناظم تحصِیل مری اور دِیگر سیاستدان مِل کر لاکھوں روپے کے عِوَض ایک منزل کا ناجائز نقشہ بنا کر پاس کرتے ہوں تو سکیل ایک سے سولہ والوں کی چھوٹی موٹی لُوٹ مار کو کوئی نہیں روک سکتا ۔
مری اِنتظامیہ کی تارِیخ اور 20 سال سے زیادہ عُمر کے مقامی لوگ گواہ ہیں کہ لائبریری کا راستہ بِالکُل سامنے تھا جِسے ہوٹل مالکان نے ہٹا کر کونے پر پہنچا دِیا اور اِنتظامیہ ایک سرکاری عمارت کی عصمت دری اپنی موجُودگی میں بِالرضا کرواتی رہی ۔ مزِید سِتم یہ کہ لائبریری کا راستہ ہوٹل و بینک کے بورڈوں، جنریٹر اور دیگر نمائشی اشیاءسے اتنا تنگ ہو گیا کہ گویا کسی غریب کے گھر کی لیٹرین کا راستہ ہو ، اِسے پہلے کی طرح کُشادہ کر کے لوہے کا بڑا گیٹ لگانے کی اشد ضرُورت ہے ۔ نِیز مال روڈ سے لائبریری تک سِیڑھیوں پر ”رین شیلٹر“ بہت ضرُوری ہے کِیُونکہ بارِش میں بھِیگے بغیر اور برفباری میں ”کورے“ پر سے پھِسل کر گِرے بغیر لائبریری پہنچنا خاصا مُشکِل ہوتا ہے اِس طرح جُنُوب ، مشرِق کے قُدرتی منظر کی بحالی بھی ناگُزیر ہے ۔
قارئین کرام ! یہ وہ لائبریری ہے جہاں سے مُلک کے نامور افسروں ، طُلباء و طالِبات ، عُلماء ، دانِشوروں ، جج ، وکلاء ، اساتذہ ، سائنس دانوں اور لکھاریوں نے نہ صرف اپنی تعلِیمی و تحقِیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشی بلکہ اُن کی ترقّی میں اِس کا بُنیادی کردار رہا ہے ۔ نِیز یہاں نامور شعراء و اہلِ قلم نے اپنی نظم و نثر سے ادب دوستوں کو مُستفِید کِیا ہے ۔ لیکِن اب اس عِلم و ادب کے گہوارے کے راستے کو تنگ اور آلُودہ کر کے عوام کو کِتاب سے دُور کرنے کی دانستہ کوشِش کی جا رہی ہے ۔ اگر اِس لائبریری کو اہلِ وطن کا مادرِ عِلمی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا لیکن سِتم ظرِیفی کی اُس وقت اِنتہا ہو گئی جب سرکاری تعطیلات کے دوران رات کی تاریکی میں "ارسلانِیہ ریسٹورینٹ” کے اِفتتاح سے قبل آخری منزل پر لائبریری کے پیچھے اپنا باورچی خانہ بنا ڈالا جِس کو الگ راستہ یا ریسٹورنٹ کے اندر سے راستہ بنانے کے بجائے لائبریری کے راستے پر قبضہ کر لیا گیا ۔ اب یہی راستہ ہوٹل کے باورچی خانے تک مزدُور اور ہوٹل کے بیرے چیزیں لانے لے جانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ جب ایک عِلمی اِدارے کے راستے سے مُرغیوں ، بھینسوں کا گوشت ، کوئلے کی بوریاں ، پانی کے ڈرم ، گھی کے کنِستر ، پیاز ، آلُو ، ٹماٹر کی بوریاں اُٹھا کر اور گھسِیٹ کر لے جائی جائیں گی تو آپ اندازہ لگا لیں کہ چِکنائی و غلاظت سے بھرے راستے پر سے گُزر کر پڑھنے کے لیے کون جانا پسند کرے گا ؟ 70فیصد بِلڈِنگ کے مالکان 70راستے نکال سکتے تھے لیکِن لوئر بازار کی اس بِلڈِنگ کو ہوٹل بن جانے کے بعد اِنتظامیہ نے لائبریری جیسی سرکاری عمارت کا راستہ بند کر کے ایک پرائیویٹ ہوٹل کو کِس قانُون کے تحت مال روڈ سے راستہ دیا ؟ مزِید براں اِنتظامیہ سے اجازت لیے بغیر لائبریری کی جگہ پر 160مربع فٹ کا طوِیل قامت بورڈ لگا کر لائبریری کا سارا مغربی منظر تباہ کر دیا جسے بالآخر اِنتظامیہ نے زبردستی اُتروایا جو کئی ماہ تک سڑک پر پڑا سیّاحوں اور راہ گِیروں کے لیے مُشکلات کا باعث بنا رہا ۔ ایک طرف تو حکُومت مری کی تارِیخی عمارات کی تزئین و حِفاظت کے لیے لاکھوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکِن اِسی ہوٹل اِنتظامیہ نے لائبریری کے داخلی راستے میں بڑا جنریٹر رکھتے ہُوئے راستہ تنگ کر کے حکُومتی کوشِشوں کا مقصد ختم کر دِیا ہے ۔ دراصل سرمایہ دار ہر دور میں سائنسدانوں ، مذہبی پیشواؤں اور سیاست دانوں کو اپنے مالی مُفادات کے تحفُّظ کے لیے استعمال کرتا آیا ہے ۔ ہوٹل مالکان نے بھی 31 مئی 2014ء کو عُلماء کرام کی موجُودگی میں وزِیرِ افرادی قُوّت سے ہوٹل کا اِفتتاح کروا کے یہ ناجائز راستہ اختیار کیا تا کہ حکُومتی سرپرستی ظاہر ہو سکے ۔ حکومتِ پنجاب ، مری کو اصل حالت میں لانے کی دعوے دار ہے جس نے ہندُوؤں ، انگریزوں کے بعد صرف پنجاب لائبریری فاونڈیشن کو گرانٹ دی لیکِن موجُودہ حالات کے پیشِ نظر جناب وزیرِ اعظم اور محترمہ وزیرِ اعلیٰ سے گُزارش ہے کہ اگر اِن قُدرتی مناظر اور کُتب خانے کے راستے کو ہوٹلوں کی ناجائز تعمِیرات سے آزاد نہ کروایا گیا تو مقامی ہوٹل مافیا اِنتظامیہ کی مِلی بھگت سے اس عِلم کے گہوارے پر بھی قابض ہو جائے گا۔ اس کتابوں بھری عمارت کو عِلم و ادب کا گہوارہ بنانے کے لیے پروفیسر کرم حیدری ، پروفیسر علامہ مضطر عباسی ، لطیف کاشمِیری ، سلیم شوالوی ، حافظ عبدالرشید ، نسِیم شمائل پوری ، چوہدری اِسماعیل ، طارق جلِیل ، ارمان فارانی ، جاوید صِدِیق ، نورالٰہی عباسی ، انور عباسی ، ذُوالفقار امین عباسی ایڈووکیٹ ، افشاں نِگار اور احمد زمان لون وغیرہ نے جو شمع اپنا خُونِ جِگر دے کر روشن کی تھی وہ آج بھی جمیل یوسف اور محمد آصف مرزا کی سربراہی میں ”مری لٹریری سرکل“ کے نام سے اہلِ مری اور دُوسرے شہروں سے آنے والے ادب دوست سیّاحوں کے اذہان کو عِلم کے نُور سے مُنوّر کر رہی ہے ۔
یاد رہے کہ اِس عمارت پر شوکت علوی کے بعد ارسلانِیہ ہوٹل کی اِنتظامیہ مُسلّط رہی ۔ جب اُن کے مالی مُعاملات تضادات کا شِکار ہُوئے تو ایک پرائیویٹ قبضہ گرُوپ نے اپنی رقم کی وصُولی کے سِلسِلے میں ہوٹل و ریسٹورینٹ پر اپنے تالے لگا دِئیے ۔ آج کل یہاں مُلک گِیر بدنامِ زمانہ ریسٹورینٹ” کی اِنتظامیہ نے سرکاری لائبریری کی 25 فُٹ گیلری پر ہوٹل کا آہنی دروازہ لگا کر اپنا قبضہ کر لِیا ہے ۔ ہوٹل مافیہ کی دِیدہ دلیری کی اِنتہاء تو مُلاحِظہ فرمائی جائے کہ ایک عشرہ قبل 21 اگست 2025ء کو ڈِپٹی کمِشنر ضِلع مری جناب آغا ظہِیر عباس شِیرازی نے اِقبال میُونسپل لائبریری کے دورے کے دوران اِس میں مزِید سہُولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اِرد گِرد ہوٹل کی تجاوزات کے خاتمے کے احکامات جاری کِیے تھے ۔ لیکِن اِنتظامیہ میں موجُود کالی بھیڑوں نے بھتّہ دینے والے ہوٹل مالکان کو راستہ دِکھا دِیا کہ "اِنتظامیہ کے قدم اُٹھانے سے پہلے پہلے مطلُوبہ جگہوں پر اپنا قبضہ کر لیں تا کہ بعد میں اِنتظامیہ کوئی عدالتی کارروائی بھی نہ کر سکے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مری اِنتظامیہ کِس دانِشمندی اور جُرأت سے سرکاری جگہ کو ہوٹل مافیہ کے قبضے سے واگُزار کرواتی ہے ؟
اِقبال میُونسپل لائبریری کو جدِید خطُوط پر اُستوار کرنے اور اِس کے قدِیم راستوں کو قبضہ مافیا سے آزاد کروانے کے لئے جناب ڈِپٹی کمِشنر کی کوشِشیں کِسی جہاد سے کم نہِیں ۔