صحافت بیتی۔۔۔ سات عشروں کی صحافتی روداد

نقد و نظر(تبصرہ کتاب)
صحافت بیتی
تبصرہ نگار:۔ میر بشیر سلطان(ابن کشفی)

بگڑ چلا ہے بہت رسم خود کشی کا جنون
ڈرانے والو کسی روز کر دکھاؤ بھی
(مصطفیٰ زیدی)

 

زیادہ دور کی بات نہیں ہے ،جب تاریخ دان،محقق،شاعر، ادیب، مصنف اور دیگر اصناف کے حضرات اپنی نگارشات وغیرہ کو محفوظ رکھنے اور دوسروں کے استفادے کے لیے کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ لیکن اب امتداد زمانہ کے ساتھ یہ رحجان بتدریج ختم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ اب ڈیجیٹل دورنے لے لی ہے۔ کتب بینی کا رحجان بھی اب زیادہ عام نہیں رہا، بیشتر حضرات اپنے ذوق کی تسکین کے لئے گوگل کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ تا ہم اب بھی کسی حد تک کتب کی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ زیادہ تر حضرات اخبارات میں شائع ہونے دالے مضامین اور کالموں کو کتابی شکل میں محفوظ کر رہے ہیں اور اس طرح ”خود کشی “ کا رحجان دم توڑرہا ہے ۔ بعض حضرات اپنے ذوق کی تسکین کے لیے معرکہ آرائی کرتے رہتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھ لیں۔
اگر اسے گوگل پر ڈاﺅن لوڈ کر لیا جاتا تو شاید اس کی اتنی افادیت نہ ہوتی،جتنی کتابی شکل میں اشاعت سے ہے۔ یہ کتاب اپنے زمانے کے قد آور، شہرہ آفاق، آزمودہ کار، تجربہ کا ر، سکہ بند، یگانہ روزگار،کہنہ مشق اور پاکستان کی صحافت کی تاریخ مین انمٹ نقوش چھوڑنے و الے صحافیوں سے ان کی شخصیت اور پیشہ کے حوالے سے کئے گئے طبع شدہ انٹرویوز پر مشتمل ہے ۔ ان میں جناب محمود شام،مظہر عباس، وسعت اللہ خان، انور سن رائے، نذیر لغاری ، عارف الحق عارف اور نامور فوٹو جرنلسٹ زاہد حسین شامل ہیں۔
یہ حرمت قلم کی کہانی اور اولوالعزمی کی داستان ہے ۔یہ مایوسی کی تیرہ و تار شبوں میں چراغ امید بننے اور ستارہ سحری کی طرح چمکنے والوں کی حکایت ہے ۔ حق تو یوں ہے کہ یہ کتاب سے بڑھ کر ایک دستاویز ہے ،یہ ایک عہد کا حوالہ اور قابل فخر سرمایہ ہے ۔ جناب عارف الحق عارف کی رائے میں نامور صحافیوں کے یہ انٹرویوز دراصل جہاں ان صحافیوں کی آپ بیتی ہے، وہیں کم و بیش سات عشروں کے عمومی حالات کے علاوہ سیاسی اور معاشرتی تاریخ اور پرنٹ میڈیا کے حالات کار کا ایک جائزہ بھی ہے۔
کتاب کے مصنف جناب سجاد عباسی سے میری ملاقات پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد کے ہال میں دو مرحوم صحافیوں کی یاد میں منعقدہ تعزیتی سیمینار میں ہوئی اور اس موقع پر سجاد صاحب نے اپنی یہ گرانقدر کتاب تحفتاً مرحمت فرمائی۔ میرے خیال میں کتاب بارے کچھ عرض کرنے کے ساتھ ساتھ اگر صاحب کتاب کے بارے میں کچھ معلومات بہم پہنچائی جائے تو کتاب کے تذکرے کی افادیت دو چند ہو جائے گی۔
جناب سجاد عباسی کا تعلق پاکستان کے صحت افزاءمقام مری سے ملحقہ ایک اور صحت افزاءمقام اورمشہور تاریخی شہر ایبٹ آباد کے علاقے بیروٹ سے ہے۔مجھے یاد ہے جب میں آزاد کشمیر کے دارالخلافہ مظفرآباد کے کالج میں زیر تعلیم تھا تو میرے ساتھ اس علاقے کے دو طالبعلم بھی ہوتے تھے جن کے نام شومئی قسمت مجھے یاد نہیں رہے ۔”صحافت بیتی”  کے مصنف ضلع کی معروف درسگاہ سے میٹرک کرنے کے بعد عازم کراچی ہوگئے، جہاں انہوں نے سپیریر سائنس کالج سے ایف ایس سی پری انجینیر نگ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسڑز کیا مگر دوران تعلیم ہی وہ پیشہ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ حامد سعیدی جیسے استادصحافی کی نگرانی میں عملی صحافت کی بنیادی تربیت حاصل کی۔ انور سن رائے اور نذیر لغاری جیسے کہنہ مشق صحافیوں کی تربیت نے قلم میں نکھار اور روانی پیدا کی۔
”صحافت بیتی“ایک نوکھی اور اچھوتی پیشکش ہے ،جس میں پاکستان کے نامی گرامی اور معاشرے کےنباض صحافیوں کے نہ صرف حالات بلکہ پیشہ ورانہ اور تخلیقی سرگرمیاں انٹرویو کی شکل میں خود ان کی زبانی بیان کئے گئے ہیں۔بقول جناب محمود شام سجاد عباسی نے ہم جیسے اخباری بوڑھوں سے بھی مکالمہ کیا۔ جواں سال ، جواں عزم کالم نویسوں ، تجزیہ کاروں سے بھی۔ دو صدیوں کی صحافت کا احوال یکجا ہو گیا۔جناب عبدالخالق بٹ کہتے ہیں ،سجاد عباسی نے آئندہ نسلوں کے لئے کچھ ایسی شخصیات کا تذکرہ خود ان کی ہی زبانی مرتب کیا ہے جنھوں نے اپنی اپنی نظریاتی وابستگی کے ساتھ ملک و قوم کے حق میں قلم اٹھایا اور حق ادا کر دیا۔ کتاب پڑھنے اور پڑھائے جانے کے لائق ہے۔ اس میں روشنی اور رہنمائی دونوں یکجا ہیں۔ جناب علی حمزہ افغان کی رائے میں یہ کتاب دراصل ایک فکری سفر ہے جو ہمیں ان ادوار کی طرف لے جاتا ہے ،جہاں آزادی صحافت مختلف چیلنجوں کا شکار رہی، لیکن اس کے باوجود ہمارے اس دور کے صحافیوں نے اپنے قلم کی حرمت کو مجروح نہیں ہونے دیا ۔اس کتاب میں شامل انٹرویوز محض ان کی ذاتی داستانیں نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں صحافت کے اتار چڑھاﺅ اور مسائل و امکانات کی کہانیاں ہیں ۔یہ کتاب پاکستانی صحافت کے سات اہم افراد کی ذاتی اور پیشہ ورانہ جدوجہد پر مشتمل سات آب بیتیاں بھی ہیں، جسے ” صحافت بیتی“ کا نام دے کر گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔امید ہے کہ صحافت کے طالب علموں کے لئے یہ کتاب خصوصی تحفہ ثابت ہو گی ۔
ہماری رائے میں تو یہ کتاب صحافت کے کورس میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔ ویسے بھی صحافت کے پیشے سے وابستہ حضرات کا اس کتاب کا مطالعہ خصوصی اہمیت کا حامل ہو گا۔