کراچی پریس کلب میں فرید پبلشرز کے بانی کی یاد میں تعزیتی اجلاس

کراچی ( ) ادبی کمیٹی پریس کلب کراچی اور بزمِ فروغِ ادب و فن (فرید پبلشرز) کے زیرِ اہتمام ” فرید پبلشرز” کے بانی اور رُوحِ رَواں سید فرید حُسین کی یاد میں تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ادبی، سیاسی، سماجی و مذہبی شخصیات نے شرکت کی اور سید فرید حُسین کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی، تقریب سے ممبر قومی اسمبلی احمد سلیم صدیقی، ممبر صوبائی اسمبلی انجینئر عثمان، پروفیسر ڈاکٹر وسیم الدین، معروف افسانہ نگار رضوان صدیقی، معروف شاعر خالد معین، معروف افسانہ نگار اور صحافی اقبال خورشید، ماہرِ معاشیات شبر زیدی، معروف شاعر اور نظامت کار سلمان صدیقی،کراچی پریس کلب کے علاؤالدین خان زادہ، ایف ایم ریڈیو کی مقبول آواز وقار الحسن، کامیڈین سلیم آفریدی ،معروف اسپورٹس اینکر پرسن یحییٰ حُسینی اور سید فرید حُسین کے چھوٹے بھائی سید شَمس حسین نے بھی خطاب کیا، تقریب کی نظامت رضوان زیدی نے انجام دی جب کہ عالمِ دین محمود اَلحُسینی نے تقریب کے اختتام پر دعائے مغفرت کرائی، احمد سلیم صدیقی ہے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سید فرید حسین نے اپنا کام بھرپور طریقے سے انجام دیا ہے کوئی بھی مشن ہو کوئی بھی تحریک ہو اگر اس میں ہماری شخصیات اپنے علم و ہنر کو اگلی نسل تک منتقل کرتے ہیں اور اگر وہ اس کام میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو یہی ان کی بڑی کام یابی ہوتی ہے سید فرید حسین نے علم کی جو شمع روشن کی وہ آگے بڑھ رہی ہے اور یہ روشنی اب پھیل رہی ہے سید فرید حسین کا ادارہ "فرید پبلشرز” محض ایک اشاعتی ادارہ نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب کا ادارہ ہے،

 

ممبر صوبائی اسمبلی انجینیئر عثمان نے کہا کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس میں دیگر زبانوں کا بھی تسلسل ملتا ہے جو ادب کے لیے کام کرتے ہیں وہ لوگ چُنے ہوئے ہوتے ہیں ایسے لوگ پہلے سے منتخب کر لیے جاتے ہیں سید فرید حسین بھی ادب کی خدمت اور کتابوں کے فروغ کے لیے چُن لیے گئے تھے، شبر زیدی نے کہا کہ آج کے اس زمانے میں جو کتابیں بیچ رہا ہے اور کتابیں بھی اردو زبان کی تو وہ آج کے دور کا ولی اللہ ہے کیوں کہ جس طرح کتابوں سے دوری ہوئی ہے وہ ایک سانحہ ہے انھوں نے کہا کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں مگر ادارہ قائم رہتا ہے سید فرید حسین نے بھی کچھ اس انداز میں کام کیا کہ آج وہ دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کا ادارہ قائم ہے اور ان کے صاحبزدگان اس ادارے کو اپنے والد سے ملنے والی تربیت کے باعث بخوبی آگے لے کر چل رہے ہیں، رضوان صدیق نے کہا کہ کتاب کائنات کی روح ہے اور یہ ہمیں ایک صحت مند اور مثالی معاشرے کا درس دیتی ہے کتاب فرد کی ذات کو نرم بناتی ہے کتاب وہ قوت ہے کہ جسے صدیوں کی ہوائیں بھی اس کا نشان نہیں مٹا سکتیں نئے لکھنے والوں کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اپنے خیالات اور اپنے الفاظ کو تحریری صورت میں لائیں اور اپنی کتاب شائع کرائیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچے انھوں نے کہا کہ اردو زبان کو زندہ رکھنے میں پبلشرز کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کتاب کو زندہ رکھنے کے لیے کتاب چھاپنے والا ضروری ہے، خالد معین نے کہا کہ سید فرید حسین سے میری پہلی ملاقات 1988 میں ہوئی تھی وہ ایک ولولہ انگیز شخصیت کے مالک تھے ان کے پاس نہ صرف ایک جذبہ اور ذہانت تھی بلکہ ایک ویژن بھی تھا چھوٹی عمر سے اردو بازار آگئے اور کتابوں سے رشتہ جوڑ لیا یہی ان کا رزق بھی بنا اور یہی ان کا کاروبار بھی انھوں نے کہا کہ سید فرید حسین نے رشتے نبھائے بھی اور رشتوں کو فروغ بھی دیا انھوں نے شوبز میں بھی کام کیا مگر جلد ہی واپس اپنے اصل عشق یعنی کتابوں کی طرف لوٹ آئے، اقبال خورشید نے کہا کہ یاد ایسی چیز ہے جو مرنے والے کو دائمی حیثیت دیتی ہے یادیں روشن چراغ کی مثال ہوتی ہیں سید فرید حسین ایسے ہی ایک چراغ تھے جس نے کئی چراغوں کو روشن کیا اور ان کے چراغ میں علم و آگاہی کا تیل تھا وہ کتابیں خریدنے پر رعایت بھی دیتے تھے سید فرید حُسین کو ہیرو بننے کا شوق تھا اور وہ واقعی ہیرو بن گئے کتابوں کی دنیا کے ہیرو، سلمان صدیقی نے کہا کہ سید فرید حسین کا خاندان ایک صاحبِ حیثیت خاندان تھا یہی وجہ ہے کہ سید فرید حُسین نے مشکل حالات کا مقابلہ بھی کیا کیوں کہ آج کے دور میں کتابوں کے ذریعے گھر چلانا کوئی آسان کام نہیں بلکہ ایک جہاد ہے انھوں نے کہا کہ سید فرید حسین کو جو تربیت اپنے والد سے ملی وہی تربیت ان کے بچوں کو بھی ملی اور آج ان کے بچے اپنے والد کے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، وقار الحسن نے کہا کہ سید فرید حسین اب ہمارے دلوں میں رہ گئے ہیں انھوں نے ادب کی خدمت کی اور آج وہ اسی ادب کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں انھوں نے کہا کہ فرید حُسین سیاست میں بھی آئے اور سیاست بھی خدمت کے ساتھ کی وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کے مسائل حل ہوں اور اسی خدمت کے مشن کو لے کر انھوں نے سیاست میں قدم رکھا تھا، سید شمس حسین نے کہا کہ فرید حسین میرے بڑے بھائی تھے مگر میرے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے انھوں نے کہا کہ انتقال کے وقت بھی ان کی آنکھوں میں میں نے دیکھا شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ میرے مشن اور خدمت کے عمل کو جاری رکھنا اور علم و آگہی کے فروغ کے لیے کام کرتے رہنا، تقریب کے اختتام پر عالمِ دین محمود اَلحُسینی نے سید فرید حسین اور تمام مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کرائی_ title surkhi nikal do