فائل فوٹو
فائل فوٹو

غزہ میں بارودی روبوٹ کا استعمال شروع

ندیم بلوچ :
غزہ میں صہیونی فوج کی جانب سے فلسطینیوں پر نت نئے ہھتیاروں کے استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ’’بارودی روبوٹ‘‘ بھی اسرائیلی اسلحہ کا حصہ بن چکا ہے۔ جو گھروں اور رہائشی محلوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ بارودی روبوٹ دراصل امریکی ساختہ M113 بکتربند گاڑیاں ہیں، جو کئی سال قبل سروس سے نکال دی گئی تھیں۔ اسے دوبارہ ڈیزائن کرکے اس میں پانچ ٹن تک بارود بھرا جاسکتا ہے اور ریمورٹ کنٹرول سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ یہ روبوٹ رہائشی علاقوں کے درمیان لے جاکر خودکار نظام یا ڈرون کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیئے جاتے ہیں۔ ایک دھماکہ تین سو مربع میٹر تک کے علاقے کو کھنڈر میں بدل دیتا ہے۔ عمارتیں اور گلیاں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کی شدت انسانی جسم کے پرخچے اڑا دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنگ کے ابتدائی مہینوں میں قابض اسرائیل نے F-16 طیاروں سے فضائی حملے کیے۔ رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کیلئے گائیڈڈ بم برسائے۔ مگر امریکی امداد کے باوجود اسمارٹ بم کی کمی کے بعد اسرائیلی فوج نے روبوٹ بموں پر زیادہ انحصار شروع کیا، جو ان کے نزدیک سستا اور زیادہ تباہ کن آپشن ہے۔

اس حوالے سے عسکری امور کے ماہر واصف عریقات نے بتایا کہ ایک بارودی روبوٹ سے پانچ فضائی بموں کا کام لیا جاتا ہے۔ ان روبوٹوں کی دو اقسام ہیں۔ بڑی چین والی بکتربند گاڑیاں متحرک بم کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور چھوٹے روبوٹ گلیوں یا سرنگوں کے دہانے پر بھیجے جاتے ہیں۔ صرف غزہ شہر کے جنوبی علاقے الزیتون میں اگست 2025ء کے آغاز سے اب تک 1500 سے زائد گھر ان بارودی روبوٹوں اور دیگر فضائی و زمینی بمباری سے ملیا میٹ کیے گئے۔

ادھرقانونی ماہرین کے نزدیک ان روبوٹوں کا استعمال بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ یہ اندھا دھند تباہی پھیلاتے ہیں اور عام شہری و جنگجو میں فرق نہیں کر پاتے۔ یہ مہلک ہتھیار عالمی سطح پر ممنوعہ قرار دیئے جا چکے ہیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی عام شہریوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ قابض اسرائیل کی ایک اور پالیسی ہے، جس کے ذریعے فلسطینی عوام کو جبراً گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔

بارودی روبوٹ کے علاوہ اسرائیل ان گنت ممنوعہ ہتھیاروں کا غزہ میں استعمال کر رہا ہے۔ جس میں سفید فاسفورس بم، جی بی یو اور ڈائم بم سب سے خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے ان کے استعمال کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ فوجی تجزیہ کار رامی ابو زبیدہ کے مطابق ان روبوٹوں کے ذریعے اسرائیل تین بڑے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اول، اپنے فوجیوں کے جانی نقصان کو کم کرنا۔ دوم سرنگوں اور دفاعی تنصیبات کو تباہ کرنا، تاکہ ٹینکوں کیلئے راستہ ہموار ہو۔ اور سوم یہ کہ خوف و ہراس کے ذریعے فلسطینیوں کا حوصلہ توڑا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ان روبوٹوں کا پہلا استعمال مئی 2024ء میں شمالی غزہ کے علاقے جبالیا میں کیا گیا تھا۔ بعدازاں انہیں شمالی و جنوبی علاقوں میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ حتیٰ کہ اسپتالوں کے قریب بھی، جہاں طبی عملے اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک شہری خالد ابوالعراج نے بتایا کہ ان روبوٹوں کے دھماکے انتہائی دہشتناک آواز پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ تر دھماکے رات کے وقت کیے جاتے ہیں تاکہ شہری زیادہ وحشت کا شکار ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے ایسا کیا جرم کیا ہے کہ یہ عذاب ہمارے اوپر ٹوٹ رہا ہے؟ ہمارے بچوں اور عورتوں نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ دن رات خوف میں جیئیں؟‘‘۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے رپورٹ کیا کہ قابض فوج نے حالیہ دنوں میں کواڈ کاپٹر کے ذریعے گھروں کو بارودی مواد سے اڑانا شروع کر دیا ہے۔ یہ ڈرون بارود سے لدی سیڑھیاں اٹھا کر گھروں پر گراتے ہیں اور پھر انہیں دھماکے سے اڑا دیتے ہیں۔

شہری وسام ابو شعیرہ نے کہا کہ ’’اب تو قابض فوج نے کوئی بھی طریقہ نہیں چھوڑا۔ گھروں کو تباہ کرنے کیلئے کبھی فضائی بمباری کرتا ہے۔ کبھی روبوٹ بھیجتا ہے اور کبھی ڈرون کے ذریعے دھماکے کرواتا ہے۔ غزہ شہر کو آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لیکن کب تک دنیا خاموش رہے گی؟ اور کب اس مجرم ریاست کو جواب دہ بنایا جائے گا؟ لیکن یہ طے ہے کہ ہم نہ بھولیں گے اور نہ معاف کریں گے‘‘۔