دبئی میں بیٹھا نیٹ ورک اسکریپ کے نام پر اربوں روپے مالیت کا الیکٹرونکس اور دیگر لگژری آئٹمز درآمد کر رہا ہے، فائل فوٹو
دبئی میں بیٹھا نیٹ ورک اسکریپ کے نام پر اربوں روپے مالیت کا الیکٹرونکس اور دیگر لگژری آئٹمز درآمد کر رہا ہے، فائل فوٹو

کباڑ کی آڑ میں قیمتی سامان منگوانے کا دھندا پھر فعال

عمران خان :
پاکستان کی معیشت کو سالہا سال سے کھوکھلا کرنے والا ایک ایسا نیٹ ورک ایک بار پھر فعال ہوگیا ہے جو دبئی میں بیٹھ کر نہ صرف اربوں روپے کی اسمگلنگ کر رہا ہے۔ بلکہ حوالہ ہنڈی، ٹیکس چوری، انڈر انوائسنگ اور مس ڈکلیئریشن جیسے فراڈز کے ذریعے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق شفیق قریشی اور کاشف بھیا اس منظم نیٹ ورک کے مرکزی کردار ہیں، جو دبئی سے اپنی ہدایات جاری کرتے ہیں۔ جبکہ کراچی اور دیگر شہروں میں موجود کلیئرنگ ایجنٹ، ٹرمنل آپریٹرز اور مقامی سہولت کار ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق شفیق قریشی اور اس کے برادر نسبتی اسلم عینی میں اختلافات کے بعد دبئی میں دو علیحدہ گروپ بن گئے۔ تاہم دونوں گروپ اپنے اختلافات کے باوجود پاکستان میں سرگرم ہیں اور مقامی کلیئرنگ ایجنٹس کے ذریعے قیمتی سامان کو کباڑ اور اسکریپ کی آڑ میں کلیئر کرا رہے ہیں۔ کراچی میں معیز، کاشف بھیا، وسیم موٹا، ٹیپو اور طارق پنڈی جیسے افراد اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو مختلف ٹرمنلز پر اپنے روابط استعمال کرکے درآمدی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔

کسٹمز ذرائع کے مطابق یہ نیٹ ورک صرف اسمگلنگ تک محدود نہیں، بلکہ انڈر انوائسنگ اور مس ڈکلیئریشن جیسے جدید ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے۔ قیمتی الیکٹرانکس، موبائل فونز اور لیپ ٹاپس کو کم قیمت ظاہر کرکے کلیئر کرایا جاتا ہے۔ کاسمیٹکس اور لگژری آئٹمز کو کم مالیت کے سامان مثلاً کباڑ یا کیٹ لِٹر سینڈ کے طور پر ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔ کئی کیسز میں مال کی مقدار اور معیار میں جان بوجھ کر فرق ظاہر کیا گیا، تاکہ کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکسوں سے بچا جا سکے۔ان ہتھکنڈوں کی بدولت نیٹ ورک سالانہ اربوں روپے مالیت کا سامان ملک میں غیر قانونی طور پر داخل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ جبکہ قومی خزانے کو ٹیکسوں کی مد میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل قبل کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل سے نکلنے والے آٹھ کنٹینرز کو بیٹری اسکریپ ظاہر کیا گیا۔ تاہم کسٹمز کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا کہ ان میں 6748 فعال بیٹریاں چھپائی گئی تھیں جن کی مالیت 13 کروڑ 49 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ لیبارٹری رپورٹ نے تصدیق کی کہ یہ بیٹریاں قابلِ استعمال ہیں اور پاکستان کی امپورٹ پالیسی کے تحت ممنوعہ اشیا میں شامل ہیں۔ تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ اس واردات کے لیے گرین چینل کی سہولت کا ناجائز استعمال کیا گیا۔ دبئی میں بیٹھا شفیق قریشی نیٹ ورک پس پردہ تھا، جبکہ کراچی میں کاشف بھیا اور اس کے سہولت کاروں نے ٹرمنل افسران اور کسٹمز اہلکاروں سے ساز باز کرکے کھیپ کو کلیئر کروانے کی کوشش کی۔

کسٹمز ذرائع کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اس نیٹ ورک کی وارداتیں سامنے آئیں۔ اس سے قبل بھی الفلاح کنٹینرز ٹرمنل سے کباڑ کی آڑ میں پرتعیش سامان کے درجنوں کنٹینرز کلیئر کرائے گئے۔ اس کے علاوہ بحریہ آف ڈاک ٹرمنل سے کیٹ لِٹر سینڈ کے نام پر قیمتی سامان اسمگل کیا گیا۔ جبکہ مختلف ٹرمنلز سے اربوں روپے مالیت کے الیکٹرانک آئٹمز اور کاسمیٹکس کلیئر ہوئے۔ ان تمام کیسز میں کسٹمز انفورسمنٹ نے مقدمات درج کیے لیکن ٹرمنل مالکان، منیجرز، ٹرانسپورٹرز اور اصل نیٹ ورک کے کرداروں تک کارروائی نہیں پہنچ سکی۔

کسٹمز کے ایک سینئر افسر کے مطابق اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ شفیق قریشی کے دبئی اور کراچی میں حوالہ ہنڈی کے ایجنٹس بھی سرگرم ہیں۔ کراچی کی الیکٹرانک مارکیٹ صدر، موبائل مارکیٹ اور گلستان جوہر میں موجود یہ ایجنٹس تاجروں سے رقوم وصول کرکے دبئی بھجواتے ہیں۔ اس غیر قانونی طریقہ کار نے منی لانڈرنگ کو فروغ دیا اور ملکی بینکاری نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مذکورہ افسر کا مزید کہنا تھا کہ کسٹمز اور متعلقہ ادارے ان اسکینڈلز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کسٹمز انفورسمنٹ کے پاس اس نیٹ ورک کے خلاف ایک درجن سے زائد فائلیں زیرِ تفتیش ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تک کسی بڑے اسمگلر یا دبئی میں بیٹھے اصل ماسٹر مائنڈ کو نہ تو گرفتار کیا جا سکا ہے اور نہ ہی مقدمات منطقی انجام تک پہنچ سکے۔

کسٹمز ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک میں اندرونی ملی بھگت موجود ہے، ورنہ بار بار ایک ہی گروہ کا بچ نکلنا ممکن نہ ہوتا۔ ذرائع کے بقول اربوں روپے مالیت کے لیپ ٹاپ، موبائل فونز سمیت دیگر مہنگی اور پرتعیش اشیا کی اسکریپ کی آڑ میں اسمگلنگ اور بیٹری اسمگلنگ اسکینڈل کے بعد حساس اداروں نے پرانی فائلوں کی چھان بین شروع کردی ہے، تاکہ دبئی حکام کو ٹھوس شواہد فراہم کرکے شفیق قریشی اور دیگر مرکزی ملزمان کو گرفتار کر کے پاکستان لایا جا سکے۔ تاہم یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا کسٹمز کے محکمے میں جاری تحقیقات کبھی اتنی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکیں گی کہ عدالتوں میں اصل نیٹ ورک کو سزا دی جا سکے؟

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کے لیے اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی اور ٹیکس چوری کا یہ جال کسی کینسر سے کم نہیں۔ دبئی میں بیٹھے نیٹ ورکس اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کار ہر سال اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر بروقت اور ٹھوس کارروائی نہ کی گئی تو یہ نیٹ ورک نہ صرف قومی خزانے کو کھوکھلا کرے گا بلکہ ملکی معیشت کو مکمل طور پر عالمی منڈیوں میں کمتر حیثیت پر دھکیل دے گا۔