ڈاکٹر ظفر اقبال
گل زاہد تین سال کراچی میں گزار کر آج واپس شانگلہ چلا گیا۔ شانگلہ ضلع جو کبھی ریاست سوات کا حصہ تھا، اس کے دور افتادہ گاؤں جہاں سے سڑک چالیس منٹ کے فاصلے پر ہے ۔ اور واپسی پر چڑھائی کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ وقت اور اس سے بھی زیادہ مشقت اور صرف وہیں کے پلے بڑھے لوگوں کے لیے برداشت کی جانے والی مشکلات کی دوری پر۔ جہاں دلہنیں بھی میلوں پیدل چل کر اپنے سسرال بیاہ کر پہنچتی ہیں اور حمل میں مشکلات کی شکار خواتین بھی۔ جہاں زندگی سادہ بھی ہے اور مشکل بھی ۔ معلومات نہ تھیں تو یہی دستور تھا۔ مواقع نہ تھے تو یہی مسلمہ امور تھے۔ بہرحال، گل زاہد اب اسی جگہ چلا گیا ہے جہاں اب آہستہ آہستہ باقی دنیا کی معلومات اور اثرات بھی پہنچ رہے ہیں اور رسائی کے امکانات بھی۔ سست ہی سہی لیکن تبدیلی کا گھونگا آگے ہی بڑھتا ہے ۔
اور گل زاہد جب تین سال قبل کراچی آیا تو پشتو انتہائی تیز اور اردو بہت ہی اٹک اٹک کر بولتا۔ اتنا اٹک اٹک کر کہ بولتا ہی نہیں تھا، سوائے اس کے کہ بولنا زندہ رہنے کے لیے ضروری ہو جائے۔ جاتے وقت اس کی اردو اس کی پشتو کی رفتار سے چار پانچ فیصد ہی کم ہوگی۔ لیکن موضوع گل زاہد کی تیز رفتار پشتو اور اب اسی طرح کی تیز رفتار اردو کی یافت نہیں، بلکہ کچھ اور ہے ۔
"گل زاہد پھول جیسا کردار ثابت ہوا اور زاہد ہی رہا، لیکن فنی صلاحیتوں کو چار چاند لگ گئے۔”
گل زاہد کون ہے؟ اور ہم سے کیسے واقفیت ہوئی؟ یہ ایک دلچسپ داستان ہے اور میرے لیے بہت خاص۔ وہ ٹھیک تین سال قبل گل زاہد الخدمت فریدہ یعقوب ہسپتال گلشن حدید کے سینیئر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں داخل ہوا، جہاں اس کی ملاقات مجھ سے ہوئی کیونکہ اس وقت میں وہاں تعینات تھا۔ گل زاہد جو انتہائی شرمیلا اور اتنے بڑے شہر میں انتہائی اجنبیت کا مارا تھا ، پوچھ پوچھ کر آگے بڑھتا اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا۔ پپری میں اپنے کسی دور کے مزدوری کرنے والے چچا کے پاس آ کر ٹھہرا اور اگلے روز ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ سوات کے سیدو شریف انسٹیٹیوٹ سے تھیٹر ٹیکنالوجی میں دو سالہ ڈپلومہ کے بعد اب وہ کراچی آ گیا تھا۔ مجھے اپنی آمد کی غایت بتائی۔ اس نے روانی میں بتایا کہ کل اپنی قیام گاہ کے قریب ایک کلینک پر ملازمت بارے پوچھنے گیا تو مجھے وہاں عجیب و غریب پریکٹس دیکھنے کو ملی۔ میں نے سوچا کہ میں کسی اچھی جگہ کام کروں۔ اسی تلاش میں کسی نے بتایا کہ الخدمت ہسپتال اس طرح کا ہے جس طرح تم کام کرنا چاہتے ہو۔گل زاہد کی بات سن کر مجھے لگا کہ یہ نوجوان ہمارے ہسپتال میں ہونا چاہیے۔ یہ بھی پیش نظر تھا کہ یہ کہیں لوٹ کھسوٹ کی ذہنیت والے ہسپتالی نظام کا حصہ نہ ہو جائے۔ بے روزگار رہ کر جہاں رہائش پذیر ہے وہاں فارغ نوجوانوں اور غلط افراد کے ہاتھوں خراب نہ ہو جائے۔ ہمیں ضرورت تو آپریشن تھیٹر میں بھی تھی اور ایمرجنسی کے اسٹاف کی ٹیم میں رات کے لیے بھی زیادہ ضرورت تھی۔ آپریشن تھیٹر میں اس کا ڈپلومہ تو تھا لیکن تجربہ ابھی بالکل نہ ہونے کی وجہ سے سرجنز کی تنہا مدد کرنا اس کے لیے مشکل ہوسکتا تھا۔ لہٰذا، ذہن بنا کہ اسے ایمرجنسی کے لیے آمادہ کیا جائے ۔
وہ آمادگی سے بھی زیادہ آمادہ تھا۔ اس کا انٹرویو کروایا گیا جو بہت گھاگ اور تجربہ کار اور چھان پھٹک والی ٹیم نے کیا۔ ٹیم کے افراد نے میرے تجزیے سے اتفاق کیا کہ یہ سادہ، شرمیلا اور زبان کی مشکلات کا شدید شکار نوجوان بہت محنتی، انسانی اقدار کا حامل اور ہمارے اور مریضوں کے لیے بہت قیمتی ہوگا۔ الخدمت اس کی تربیت کر کے اسے نکھار سکتی ہے ۔ اس کی حوصلہ افزائی، ٹیم کی مدد اور ماحول سے اس میں نکھار آ سکتا ہے۔ اس کے ٹیم لیڈر، اس کے نصف ہم نام گل محمد کی انتہائی شفقت اور ساری ٹیم نے جو اس کی ہم زبان بھی نہ تھی، گل زاہد کی پیشہ ورانہ اور کمیونیکیشن کی صلاحیتوں میں وہ نکھار پیدا کیا کہ تین سال میں گل زاہد پھول جیسا کردار ثابت ہوا اور زاہد ہی رہا، لیکن فنی صلاحیتوں کو چار چاند لگ گئے ۔ اقدار کی بنیاد پر پریکٹس کے الخدمت ہسپتال میں مختلف کلچر، مریض کی جیب کے بجائے اس کی صحت کی فکر اور جس چیز کی ضرورت ہے وہی لکھا اور بتایا جائے اور ہر ایک کے ساتھ بلا امتیاز اور احترام کا سلوک کیا جائے، یہ گل زاہد نے پوری ٹیم کو اس پر کاربند اور مسلسل عمل کا حصہ دیکھا ۔
اس کے والدین اور اس کے اساتذہ نے جو اس کی کردار سازی کی تھی اس میں گلشن حدید کے اس کے ہم عمر دوستوں نے اسے اعتماد دیا ۔ اس پر اعتماد کیا۔ وہ اس گل کی خوشبو سے مستفید ہوئے اور جو دین اور والدین اور اساتذہ سے سیکھا تھا اس تجربے میں اسے بھی حصہ دار بنایا۔ زبانوں کے فاصلے بے معنی ہو گئے ۔ پشتو، سندھی، اردو اور پنجابی، بلوچی اس کے لیے رکاوٹ نہیں رہی۔ ہر زبان بولنے والے گل کو بہترین انداز سے کام کرتے دیکھتے اور الخدمت ہسپتال سے مطمئن اور پر اعتماد ہوتے۔ کئی بار بڑی ایمرجنسیز میں جہاں سرعت کے ساتھ کام کی ضرورت ہوتی تو کیمرے بتاتے کہ رات کے تین بجے بھی گل زاہد چیتے کی رفتار سے سریع اور پھرتیلا، چوکنا اور مصروف ہوتا۔ بڑوں اور ٹیم کے سینیئرز کے ساتھ مؤدب اور مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ شفیق ہوتا۔
گل زاہد چھٹیوں میں گاؤں گیا تو اس کی شادی کے بعد ایک دوا کا ری ایکشن ہوا جو ہزاروں میں کسی ایک کو ہوجاتا ہے۔ ایسا کہ شدید بیمار ہوگیا ۔ گردے کام کرنا چھوڑ گئے اور ڈائیلیسس کروانا پڑا۔ کئی ماہ بعد واپس آنے کے قابل ہوا تو اتنی طویل چھٹیوں کے انتظامی نتائج سے صرف نظر کرتے ہوئے الخدمت کراچی نے خصوصی رعایت کا مظاہرہ کیا جو الخدمت جیسی تنظیم ہی کر سکتی ہے۔ الحمدللہ، گل زاہد پھر ایمرجنسی میں جستیں بھرتا اور مریضوں کی خدمت کرتا رہا۔
اب اس کے والدین اسے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اسی سادہ ماحول میں جہاں کے ماحول کی روداد ایک مقامی کلچرل شاک کا صفحہ ہے۔ گل زاہد پر کراچی میں ایک سال ہی کے بعد اتنے اثرات تو ہوئے کہ وہ تبدیلی کے خواہاں لوگوں کے ساتھ تبدیلی کا پیامبر بنتا گیا، بے باک ہوتا گیا۔ گاؤں میں وہ پہلا فرد ہے جو اپنی جنج (بارات) میں گیا۔ ورنہ صدیوں سے کوئی ایسا بے باک پیدا نہ ہوا تھا جو اپنی جنج میں خود ساتھ جاتا ، خود دلہن کے ساتھ واپس گھر آتا ، دلہن کے ساتھ بات کرتا، والدین کے سامنے دلہن کو نام لے کر پکارتا اور گاؤں کے کئی لوگ سوچتے کہ کیا زمانہ آ گیا ہے کہ اپنی نئی نویلی بیگم سے بات کر رہا ہے۔
"اقدار پر عامل اور کردار کے حامل چراغ، روشنی بانٹتے پھرتے ہیں۔ دوسروں میں توانائی بھرتے پھرتے ہیں۔”
گل زاہد نے استعفیٰ دے دیا اور اپنے کاغذات کی تکمیل میں لگ گیا۔ اب وہ اپنے علاقے میں کسی مناسب جگہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق اچھا کام کرے گا۔ آخری نائٹ ڈیوٹی کرنے کے بعد مجھ سے میسیج پر بات کی کہ آپ الخدمت ہسپتال شاہ فیصل کالونی میں ہیں؟ میں میسیج نہ دیکھ سکا تو فون نمبر معلوم کر کے ہسپتال استقبالیہ سے میرا پوچھا اور گلشن حدید سے زندگی میں پہلی بار شاہ فیصل کالونی پہنچ گیا اور گوگل میپ سے دیکھتا رہا کہ کتنا فاصلہ رہ گیا۔ گل زاہد الوداعی ملاقات کے لیے آیا۔ ملاقات ہمیشہ کی طرح میرے حوصلوں کو مہمیز دینے اور توانائی کے بے پناہ ذخائر اپنے اندر جمع کرنے کا موقع تھی۔ یہ چارجنگ اس کی محتاج نہیں کہ کون آپ سے کتنا بڑا اور کتنا چھوٹا ہے۔ اقدار پر عامل اور کردار کے حامل چراغ، روشنی بانٹتے پھرتے ہیں۔ دوسروں میں توانائی بھرتے پھرتے ہیں۔ کمزور بیٹریوں کو چارج کرتے جاتے ہیں۔ اندھیروں کو مایوس کرتے جاتے ہیں اور روشنی بڑھاتے جاتے ہیں۔ ملاقاتیں گپ شپ اور گھنٹوں غیبت کے نہ ختم ہونے والے پیکج، یاوہ گوئی اور فضول باتوں کے پہاڑوں پر مشتمل بھی ہوسکتی ہیں۔ فسادی گفتگو اور انتشاری موضوعات پر بھی ساری ساری رات ڈیوٹی گزاری جا سکتی ہے ۔ لیکن جن کو والدین اور اساتذہ کچھ سکھانے میں کامیاب ہو جائیں وہ قیمتی تر ہو جاتے ہیں۔ اور اپنا ہر آنے والا کل گزرے کل سے بہتر بنا کر حقیقی انسان بنے جاتے ہیں ۔
میں نے پوچھا کہ گل زاہد لوگ سخت بات بھی کرجاتے ہیں،سطح سے کچھ لوگ گر بھی جاتے ہیں، اجنبیت اور زبان کے فرق کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ لسانی حوالوں سے دوسروں کی حق تلفی اور دل شکنی بھی دل لگا کر کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ تو ان چیزوں پر کیا محسوس کرتے تھے؟ گل زاہد نے کمال اطمینان اور بھرپور اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو ایک چٹان جیسا مضبوط ثابت کرتے ہوئے کہا کہ تکلیف میں مبتلا افراد کی ہر بات میں ان کی بیماری، چوٹ اور تکلیف کی وجہ سے فراموش کر دیتا تھا، پھر وہ مجھے دعائیں دیتے جاتے تھے۔ اور تہذیب سے عاری افراد کی بات میں ایک کان سے سن کے دوسرے کان سے نکال دیتا تھا۔ کبھی دل پر نہیں لیا۔ اور ویسے بھی انسانوں کی بہت بڑی تعداد ان چیزوں میں نہیں پڑتی۔ چند لوگ ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ میں ان چیزوں کا اثر نہیں لیتا۔ تیئس سال کی عمر میں یہ شعور اور مضبوط دل ہم سب کے لیےحوصلہ افزا اور امید کی کرن ہے۔ گل زاہد اپنی ٹیم، سینئیرز، ہسپتال کے سب ساتھیوں، مینجمنٹ، کراچی، گلشن حدید اور الخدمت ہسپتال کا ممنون ہے۔گل زاہد ہمارے ساتھ ایک الوداعی تصویر کھنچوا کر چلا گیا، لیکن ہمیں اس کے جانے پر جدائی کا اتنا غم نہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ شانگلہ کے دور دراز کے پہاڑ اس سے جگمگائیں گے۔ (ان شاء اللہ)
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos