ارشاد کھوکھر:
پنجاب کے بعد اب سندھ کو دو بڑے سیلابی ریلوں سے خطرہ ہے۔ پنجاب میں بڑی تباہی مچانے والا پہلا بڑا سیلابی ریلا آج رات کو سندھ میں گدو بیراج کے مقام پر پہنچے گا۔ جس کے باعث گدو بیراج کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ جبکہ دوسرا بڑا سیلابی ریلا چار دن کے بعد سندھ میں داخل ہوگا۔ جس کے پہلے سیلابی ریلے سے زیادہ خطرناک ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔جس سے سپر فلڈ کی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
بارشوں کے بعد پنجاب میں سیلاب سے بھی ہلاکتیں بڑھنے لگی ہیں۔ سیلاب اور بارشوں کے باعث ملک بھر میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 922 ہوگئی ہے۔ جن میں سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 123 افراد کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔ جن میں سے 79 افراد صوبہ پنجاب میں ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں تیسری بار سیلابی ریلا چھوڑنے کے باعث ہیڈ گنڈا سنگھ والا ، ہیڈ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام کے علاقوں میں تباہی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔
بھارت کی جانب سے دریائے چناب، دریائے راوی اور دریائے ستلج میں چھوڑے گئے پہلے سیلابی ریلوں کا پانی چار دن پہلے پنجند کے مقام پر پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔ جہاں سے اتوار اور پیر کی رات 3 بجے سب سے بڑا سیلابی ریلا جو کہ دو لاکھ 6 ہزار 669 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ پنجاب سے مذکورہ سیلابی ریلا گزشتہ رات چاچڑ شریف کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جہاں وہ دریائے سندھ میں داخل ہوجائے گا۔ اور آج رات تک وہ سیلابی ریلا گدو بیراج کے مقام پر پہنچے گا۔ جہاں پر پانی کی مقدار 7 لاکھ کیوسک سے بھی بڑھ سکتی ہے کیونکہ پنجاب کے دریائوں کے آنے والے 6 لاکھ 9 ہزار کیوسک کے ساتھ دریائے سندھ میں اپنے سسٹم میں بھی تقریباً سوا دو لاکھ کیوسک پانی پہلے سے ہی شامل ہے جو مل کر گدو بیراج کے مقام پر پہنچے گا۔
سندھ کے محکمہ آب پاشی کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے آٹھ لاکھ کیوسک پانی پہنچنے کو مد نظر رکھ کر انتظامات کئے ہیں۔ جبکہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں جب وہ پانی داخل ہوگا تو رانجھن پور ، رحیم یار خان کے کچے کے علاقوں میں بھی پھیل جائے گا جس کے باعث چاچڑ شریف کے مقام پر جو پانی کی مقدار ریکارڈ کی جائے گی اس کے مقابلے میں گدو کے مقام پر پانی کم پہنچے گا۔ مذکورہ ماہرین کے مطابق تقریباً دس روز قبل گدو بیراج کے مقام سے پانچ لاکھ 47 ہزار کیوسک کا پہلا سیلابی ریلا پہلے ہی گزر چکا ہے جس سے سندھ میں کچے کا علاقہ پہلے ہی زیر آب آچکا ہے۔
اس طرح سات لاکھ کیوسک پانی کا دوسرا ریلا جو گدو بیراج کے مقام پر پہنچے گا تو اس سے کچے کا پورا علاقہ زیر آب آسکتا ہے۔ اور وہ پانی تیزی سے سکھر اور کوٹری بیراج کی طرف بڑھے گا۔ اور پانی کے مقدار میں نمایاں کمی نہیں ہوگی کیونکہ کچے کا علاقہ پہلے ہی زیر آب آچکا ہے۔ گزشتہ روز گدو بیراج کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب تھا۔ جہاں پانی کی مقدار سوا چار لاکھ کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی۔ جس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ روز سکھر بیراج کے مقام پر بھی پانی کی مقدار پانچ لاکھ 52 ہزار 10 کیوسک ہونے کے بعد وہاں بھی درمیانے درجے کا سیلاب ڈیکلیئر کیا گیا ہے۔
جبکہ کوٹری بیراج کے مقام پر پانی کی مقدار کم ہورہی ہے۔ کیونکہ وہاں سے پہلا بڑا سیلابی ریلا گزر چکا ہے تاہم پھر بھی وہیں پر نچلے درجے کے سیلاب کی صورت حال برقرار ہے۔ اس طرح گدو بیراج کے مقام سے جو بڑا سیلابی ریلا گزرے گا وہ نو سے دس دن کے اندر کوٹری بیراج کے مقام پر پہنچے گا۔ جہاں پر بھی اونچے درجے کے سیلاب کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت سندھ نہ دریائے سندھ صوبے کے جن پندرہ اضلاع سے گزرتا ہے ، ان تمام اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے اور کچے کے علاقے میں لوگوں کی نقل مکانی کے لئے تقریباً 742 کشتیاں پہنچائی گئی ہیں۔
بھارت نے دریائے چناب میں جو دوسرا سیلابی ریلا چھوڑا تھا وہ اور ستلج کا دوسرا بڑا سیلابی ریلا اب تیزی سے پنجند کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو دو دن کے بعد پنجند پہنچے گا۔ اتوار اور پیر کی رات پنجند کے مقام پر پہلا بڑا سیلابی ریلا گزرنے کے بعد وہاں پر اب پانی کی مقدار کم ہورہی ہے تاہم وہاں پھر بھی انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ گزشتہ روز مذکورہ مقام پر پانی کی مقدار پانچ لاکھ 24 ہزار 762 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسرا سیلابی ریلا پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے ، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے بھارت نے جو پہلا سیلابی ریلا دریائے چناب میں چھوڑا تھا وہ پاکستان میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر دس لاکھ 77 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا جو مختلف علاقوں کو ڈبوتا ہوا جب ہیڈ تھریموں کے مقام پر پہنچا تو پانی کی مقدار پانچ لاکھ 47 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی لیکن دریائے چناب میں بھارت سے آنے والا دوسرا سیلابی ریلا ہیڈ مرالہ کے مقام پر ساڑھے پانچ لاکھ کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا۔ لیکن دریائے چناب کا وہ پانی جب ہیڈ تریموں تک پہنچا تو وہاں بھی ساڑھے پانچ لاکھ کیوسک ریکارڈ کیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے سیلابی ریلے سے متعلقہ علاقوں میں جو پانی پھیلنا تھا وہ پھیل گیا جس کے باعث مزید پانی کے پھیلنے کی گنجائش نہیں تھی اور یہ بھی دیکھا گیا کہ پہلے کے مقابلے میں پانی کی رفتار بھی بڑھ گئی ہے۔
اسی طرح دریائے راوی میں سدھنائی کے مقام پر مسلسل انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے جہاں سے مسلسل ایک لاکھ کیوسک سے زائد کا سیلابی ریلا پنجند کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح ستلج میں بھارت نے دوروز قبل دوسرا سیلابی ریلا چھوڑا ہے۔ جس کے باعث ہیڈ گنڈا سنگھ والا کے مقام پر تباہی کا منظر ہے۔ مذکورہ پانی ہیڈ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام سے ہوتا ہوا پنجند کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہیڈ اسلام کے مقام پر پانی کی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ روز وہاں پر پنجند کی طرف بڑھنے والے پانی کی مقدار ایک لاکھ 20 ہزار 598 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔
ماہرین کے مطابق ہیڈ اسلام اور ہیڈ تریموں سے گزرنے والا پانی تقریباً ایک ساتھ ہی پنجند پہنچتا ہے۔ اس طرح دریائے ستلج، دریائے چناب اور دریائے راوی کا تقریباً سات لاکھ کیوسک پانی پنجند پہنچ سکتا ہے۔ جہاں پر پہلے ہی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ جس سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پنجند سے دریائے سندھ میں جو دوسرا سیلابی ریلا آئے گا وہ سات سے آٹھ لاکھ کیوسک تک ہوسکتا ہے۔ اور اس دوران ڈیرہ غازی خان میں کوہ سلیمان کے علاقوں میں بارش کی بھی پیشن گوئی کی گئی ہے۔
اگر وہاں پر شدید بارشیں ہوئی تو وہ پانی بھی دریائے سندھ میں گرے گا جس سے پانی کی مقدار میں مزید اضافہ ہوگا۔ اور پنجاب کی طرح دریائے سندھ میں بھی رحیم یار خان، راجن پور کے کچے کے علاقے پہلے ہی زیر آب ہونے کے باعث مذکورہ سیلابی ریلے کو مزید پھیلنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ جس کے باعث آئندہ چار سے چھ دن کے بعد گدو بیراج کے مقام پر نو لاکھ کیوسک سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ جس کے باعث وہاں سپر فلڈ کی صورت حال متوقع ہے۔ جس کا زور دو دن کے بعد سکھر بیراج اور ایک ہفتے کے بعد گدو بیراج کے مقام پر بھی پڑے گا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق 26 جون سے شروع مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے 25 اگست تک ملک بھر میں ہونے والی اموات کی تعداد 799 تھی جس کے بعد وہ تعداد بڑھ کر 922 ہوچکی ہے۔ 25 اگست کو پنجاب کے دریائوں میں سیلاب کی صورت حال سے قبل وہاں پر بارشوں سے پنجاب میں ہونے والی اموات کی تعداد 165 تھی جو اب سیلاب کے بعد بڑھ کر 244 ہوگئی ہے۔ اس طرح 25 اگست کے بعد ملک بھر میں 123 ہلاکتوں کا جو اضافہ ہوا ہے ان میں سے 79 افراد پنجاب میں لقمہ اجل بنے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos