سٹے کی 90 فیصد ایپس بھارتی نکلیں- شہریوں کا ذاتی ڈیٹا بھی چُرایا جارہا ہے ، فائل فوٹو
 سٹے کی 90 فیصد ایپس بھارتی نکلیں- شہریوں کا ذاتی ڈیٹا بھی چُرایا جارہا ہے ، فائل فوٹو

آن لائن جوئے کی تشہیر میں ملوث یوٹیوبرز پھنس گئے

عمران خان:
پاکستان کی سائبر اسپیس میں غیر قانونی آن لائن جوئے اور سٹے کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے ریاستی اداروں کو سخت قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک میں آن لائن جوئے سٹے کی ایپس کی پروموشن کے اسکینڈل میں یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ’’ڈکی‘‘ کی گرفتاری سے شروع ہونے والی تحقیقات کا دائرہ اقرا کنول، ندیم نانی والا، انس، مدثر، رجب بٹ سمیت درجن سے زائد یوٹیوبر اور ٹک ٹاکرز تک پھیلا دیا گیا ہے۔

این سی سی آئی اے سے موصول دستاویزات اور ذرائع سے پتا لگا ہے کہ نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کی حالیہ تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں سرگرم نوے فیصد سے زائد آن لائن جوا اور سٹے کی ایپس بھارتی کمپنیوں اور افراد کی جانب سے چلائی جارہی ہیں۔ یہ ایپس نہ صرف پاکستانی شہریوں سے اربوں روپے بٹور رہی ہیں، بلکہ لاکھوں موبائل صارفین کا حساس ذاتی ڈیٹا بھی چرا چکی ہیں۔

این سی سی آئی اے نے اپنی تحقیقات کو حتمی شکل دیتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ایک فہرست ارسال کی ہے، جس میں ایسی چھیالیس موبائل ایپلیکیشنز اور ویب سائٹس کو غیر قانونی قرار دے کر فوری طور پر بلاک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان پلیٹ فارمز میں نہ صرف مشہور بیٹنگ اور کیسینو ایپس شامل ہیں بلکہ غیر مجاز فاریکس اور بائنری ٹریڈنگ پلیٹ فارمز بھی موجود ہیں، جن کے ذریعے عام صارفین کو آسان پیسے کے خواب دکھا کر لوٹا جا رہا تھا۔

ذرائع کے مطابق ان ایپس میں 1xBet، Aviator Games، Chicken Road، Dafabet، 22Bet، Bet365، Plinko، Betway، Rabona، Casumo، BetWinner، 888Starz اور Thunderpick جیسی معروف گیمز اور بیٹنگ پلیٹ فارمز شامل ہیں جو عالمی سطح پر بھی زیرِ بحث رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ Binomo، IQ Option، Pocket Option، Deriv، Olymp Trade، OctaFX اور Quotex جیسے بائنری اور فاریکس ٹریڈنگ پلیٹ فارمز کو بھی پاکستان میں غیر قانونی قرار دے کر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ تمام ایپس بظاہر سرمایہ کاری یا قسمت آزمانے کا موقع فراہم کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں یہ عام شہریوں کی رقم کو ہڑپ کرنے کا ایک جدید طریقہ ہے۔

تحقیقات کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ کئی ایپس اور ویب سائٹس صارفین کا حساس ڈیٹا بھی بغیر اجازت کے جمع کر رہی تھیں۔ ان میں Sim Owner Details، Pak Sim Data، Sky Sim Data اور Sim Tracker جیسی ایپلیکیشنز شامل ہیں جو قومی شناختی کارڈ اور موبائل سم کے ڈیٹا کو غیر قانونی طور پر محفوظ کر کے شہریوں کو سنگین نوعیت کے فراڈ اور شناختی چوری کے خطرات سے دوچار کر رہی تھیں۔ ان سرگرمیوں نے نہ صرف افراد بلکہ ملک کے مالیاتی نظام اور ڈیجیٹل سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق کر دیئے تھے۔

این سی سی آئی اے ذرائع نے واضح کیا کہ ان تمام ایپس کو بلاک کرنے کا مقصد صرف انہیں بند کرنا نہیں، بلکہ عوام کو ان کے نقصانات سے آگاہ کرنا بھی ہے۔ اسی لیے ادارے نے نہ صرف کارروائی کا آغاز کیا بلکہ عوامی آگاہی مہم بھی شروع کی تاکہ شہری اپنی مالی اور ذاتی معلومات کے تحفظ کے لیے محتاط رہیں۔ حکام نے شہریوں کو سختی سے ہدایت دی ہے کہ اگر ان میں سے کسی بھی ایپ یا ویب سائٹ کا استعمال کیا جا رہا ہو تو اسے فوراً اپنے موبائل یا کمپیوٹر سے حذف کر دیا جائے تاکہ ممکنہ مالی نقصان یا ڈیٹا لیکیج سے بچا جا سکے۔

اس معاملے نے ایک اور پہلو اس وقت اختیار کیا جب ان ایپس کی پروموشن کرنے والے سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی وفاقی ایجنسی کے ریڈار پر آگئے۔ یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ’’ڈکی‘‘ کی گرفتاری اس مہم کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ اسے لاہور ایئرپورٹ سے اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا نام پروویژنل نیشنل آئیڈینٹی فکیشن لسٹ (PNIL) میں شامل تھا جس کی وجہ سے اس پر سفری پابندی عائد تھی۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق ’’ڈکی‘‘ Binomo اور B9 Game جیسی غیر قانونی ایپس کی پروموشن کرتا رہا ہے اور اس کے یوٹیوب چینل پر کئی ایسی ویڈیوز موجود تھیں جن میں یہ پلیٹ فارمز براہِ راست یا بالواسطہ طور پر فروغ پاتے رہے۔

این سی سی آئی اے نے ڈکی کو گرفتار کرنے کے بعد تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا اور مزید یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کو شامل تفتیش کیا گیا۔ ان میں رجب بٹ، اقرا کنول، ندیم نانی والا، انس اور مدثر جیسے نام نمایاں ہیں۔ ادارے نے ان کے بینک اکاؤنٹس، سوشل میڈیا سرگرمیوں اور مالی لین دین کی تفصیلات کی جانچ شروع کر دی ہے۔ مدثر نامی یوٹیوبر کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب عدالت سعد الرحمان ڈکی کے جسمانی ریمانڈ میں نصف درجن سے زائد بار توسیع کر چکی ہے تاکہ تفتیش مکمل کی جا سکے۔

این سی سی آئی اے کی جانب سے کی جانے والی اس کارروائی کی نگرانی سینئر افسر سرفراز چوہدری کر رہے ہیں جو اس معاملے کو ریاستی پالیسی کے تحت ’’آہنی ہاتھوں‘‘ سے نمٹنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوئے اور سٹے کی یہ سرگرمیاں نہ صرف پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے خلاف ہیں بلکہ مالیاتی اور قانونی خطرات بھی پیدا کرتی ہیں، اس لیے اس معاملے پر کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

این سی سی آئی اے ذرائع کے مطابق آن لائن جوا اور سٹہ نوجوان نسل کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ نوجوان تعلیم اور محنت سے ہٹ کر شارٹ کٹ کے ذریعے دولت کمانے کے خواب دیکھنے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف مالی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں اور جرائم میں بھی ملوث ہونے لگتے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق ایسے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں جہاں نوجوانوں نے اپنی جیب خرچ یا گھریلو رقم ان ایپس پر لگا کر سب کچھ کھو دیا اور پھر مزید پیسے کے حصول کے لیے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔

این سی سی آئی اے نے شہریوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ صرف قانونی اور رجسٹرڈ پلیٹ فارمز استعمال کریں، کسی بھی غیر مجاز یا مشکوک ایپ یا ویب سائٹ سے دور رہیں۔ اور اگر کہیں ایسی سرگرمی نظر آئے تو فوری طور پر متعلقہ اداروں کو اطلاع دیں۔ ساتھ ہی عوام کو ڈیجیٹل خواندگی میں اضافے کی بھی تلقین کی گئی ہے تاکہ ہر شخص کلک کرنے سے پہلے یہ سمجھ سکے کہ اس کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت جوا اور سٹہ سنگین جرم ہیں اور ان کے انسداد کے لیے مخصوص قوانین بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان سرگرمیوں کا پھیلاؤ ایک بڑا چیلنج ہے۔ تاہم این سی سی آئی اے کی حالیہ کارروائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ریاست اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھا رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ کارروائی پاکستان میں شہریوں اور اداروں کے ڈیجیٹل تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہے، مگر اس کی کامیابی عوامی تعاون اور احتیاط سے مشروط ہے۔ اگر شہری خود محتاط رہیں اور اپنی ذاتی معلومات کو محفوظ رکھیں تو ایسے جرائم کے خلاف جنگ مزید مؤثر انداز میں جیتی جا سکتی ہے۔