فائل فوٹو
فائل فوٹو

نشئیوں اور گداگروں کیخلاف آپریشن سست پڑگیا

اقبال اعوان :
کراچی میں گداگروں اور ہیروئنچیوں کے خلاف پولیس کا کریک ڈائون سست روی کا شکار ہوگیا ہے۔ پولیس ان کو پکڑ کر ایدھی فائونڈیشن کے حوالے کرتی ہے۔ ایدھی ترجمان کا کہنا ہے کہ 150 کے قریب نشئی اور گداگر موجود ہیں۔ آج کل حیدرآباد سے بھی نشئی لاکر حوالے کرتے ہیں۔ مناسب انتظام نہ ہونے پر نشئی اور گداگروں کی شہر میں بھرمار ہے۔

واضح رہے کہ کراچی میں دن بدن ملک بھر سے گداگروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان کی نئی نئی آبادیاں بن رہی ہیں۔ سندھ حکومت بار بار پولیس کو کریک ڈائون کی ہدایات جاری کرتی ہے اور عدلیہ بھی ان کے خلاف بھرپور کارروائی کا حکم دیتی ہے کہ پوش علاقوں کے چوراہوں پر ٹریفک کی روانی میں فرق آتا ہے۔ شہر میں ان کی تعداد بعض ذرائع کے بقول 80 ہزار سے لاکھ سوا لاکھ تک ہے۔ بوڑھے، نوجوان، بچے، عورتیں صبح سے رات تک بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ سندھ کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بار بار واضح ہدایات دی گئیں کہ گداگروں کا ڈیٹا جمع کریں۔ ان کی بستیوں میں جرائم پیشہ افراد موجود ہوتے ہیں۔

گزشتہ ماہ بھی اجلاس میں احکامات دیئے گئے۔ تاہم عمل درآمد نہیں ہوا۔ شہر کے ایک دو تھانے دار سوشل میڈیا پر گداگروں کو پکڑ کر اعلیٰ افسران سے کریڈٹ لیتے ہیں۔ تاہم شہر میں ان کی آبادیوں کی چھان بین اور گداگروں کا ڈیٹا جمع کرنے کا کام سرے سے شروع نہیں ہوا۔ اب ان گداگروں میں جنوبی پنجاب اور سندھ کے کچے کے لوگ، ہندو افراد بھی شامل ہیں۔ شہر میں جرائم کی شرح کنٹرول نہ ہونے کی اہم وجہ گداگر ہیں کہ نشہ کرنے والے چوریاں کرتے ہیں۔ لوٹ مار ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

شہر میں مختلف فلاحی اداروں کے دستر خوانوں پر گداگر اور نشئی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ بسوں، کوچوں، چورنگیوں، رہائشی علاقوں، بازاروں، مارکیٹوں، ریلوے اسٹیشن کے باہر بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ دوسری جانب شہر میں نشہ کرنے والوں کا بندوبست نہیں ہو سکا۔ چرس، افیون، ہیروئن، آئس، کچی شراب فراہم کرنے والوں کو بعض پولیس افسران کی سرپرستی حاصل ہے۔ اب اعلیٰ افسران کا دبائو آتا ہے تو چند نشہ کرنے والے ہیروئنچی پکڑ کر سوشل میڈیا پر ویڈیو لوڈ کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ شہر کے اندر لگنے والے درجنوں دستر خوانوں پر دوپہر اور شام کو سیکڑوں ہیروئنچی نظر آتے ہیں جو چوری یا ادھر ادھر سے جمع شدہ اشیا کباڑیوں کو فروخت کر کے منشیات حاصل کرتے ہیں۔

ایدھی ترجمان محمد بلال کا کہنا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد سے نشہ کرنے والوں کو پکڑ کر ان کے حوالے کرتے ہیں۔ جو ایک دو ہفتے علاج کر کے دوبارہ چھوڑ دیتے ہیں جس طرح ناظم آباد میں شیلٹر ہائوس سے ہیروئنچی ساتھیوں کر رہا کرا کے لے گئے۔ اس طرح پولیس کو دیکھ کر ایک دوسرے کو بتا کر فرار کراتے ہیں۔ گداگروں اور نشہ کرنے والوں کے خلاف بھرپور آپریشن نہ ہونے کی وجہ مک مکا کرنا ہے۔