فائل فوٹو
فائل فوٹو

غیر ملکی شراب بیچنے والا نیا نیٹ ورک سرگرم

عمران خان :
غیر ملکی سفارتخانوں کے نام پر ان کے اسٹاف کے استعمال کیلئے منگوائی گئی کروڑوں روپے مالیت کی غیر ملکی شراب پاکستان میں فروخت کرنے کا ایک اور نیٹ ورک سرگرم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ تاہم ماضی کی طرح سامنے آنے والے بڑے گروپوں کی طرح اس بار بھی معاملہ دبا دیا گیا۔ اس معاملے میں متعلقہ کسٹمز حکام، غیر ملکی سفارت خانوں سے منسلک پرائیویٹ اور سرکاری نیٹ ورک کے ساتھ ہی اسلام آباد پولیس کی سہولت کاری اور ملی بھگت کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جس پر خود پولیس کے ایک اہلکار نے ہی بھانڈا پھوڑ دیا۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے اعلیٰ حکام کو دی گئی خفیہ درخواست میں اپنے ہی تھانے کے اہلکاروں اور بااثر نیٹ ورک کے خلاف چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ درخواست گزار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ متعلقہ پولیس عملہ غیر ملکی شراب فروشی میں نہ صرف ملوث ہے، بلکہ اس سے بھاری رشوت وصول کر کے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ درخواست کے مطابق، چند روز قبل ڈاکٹر پروانی نامی شخص کو غیر ملکی شراب فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جس کے قبضے سے تقریباً 70 لاکھ روپے مالیت کی شراب برآمد کی گئی۔ تاہم پولیس نے برآمدگی کو صرف 50 بوتلوں تک محدود کر کے ریکارڈ میں درج کیا۔ جبکہ باقی شراب واپس کر دی گئی۔

مزید برآں، ڈاکٹر پروانی کو سہولت دینے کیلئے پولیس اہلکاروں نے 15 لاکھ روپے رشوت بھی وصول کی اور صرف تین دن میں اس کی ضمانت کروانے میں مدد فراہم کی۔ درخواست میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایک اور اہم کردار فیاض خان ہے، جو مبینہ طور پر تھائی لینڈ کے سفارتخانے سے منسلک ہے۔ فیاض خان پر الزام ہے کہ وہ سفارت خانوں کے نام پر اور ان کے اجازت ناموں (این او سی) کے ذریعے غیر ملکی شراب درآمد کرتا ہے اور پھر یہ شراب مقامی مارکیٹ میں ڈیلروں کو فروخت کر دیتا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ اور وزارت صنعت و تجارت صرف غیر ملکی سفارت خانوں کو ذاتی استعمال کیلئے شراب درآمد کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ان اجازت ناموں پر کسٹمز حکام کنٹینرز کو کلیئرنس دیتے ہیں۔ تاہم یہ شراب کسی صورت مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں کی جا سکتی۔ اس عمل کو نہ صرف غیر قانونی بلکہ اسمگلنگ سے بھی سنگین جرم قرار دیا جاتا ہے۔ درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں متعلقہ سفارت خانوں کا اسٹاف بھی ملوث ہو سکتا ہے۔

جب ڈاکٹر پروانی کو گرفتار کیا گیا تو اعلیٰ پولیس افسران پر مختلف بااثر شخصیات نے دبائو ڈالا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور دیگر افسران کے علاوہ فیاض خان کے بااثر روابط بھی اس نیٹ ورک کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ درخواست گزار اہلکار نے کہا ہے کہ پولیس کے یہ اقدامات حکومت کے ویژن ’نشہ اب نہیں‘ کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ پولیس کے اس کردار سے نہ صرف معاشرے میں منشیات اور غیر قانونی شراب کے کاروبار کو فروغ مل رہا ہے۔ بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

اہلکار نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ اس نیٹ ورک کے خلاف آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ پولیس اور متعلقہ عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور غیر ملکی سفارت خانوں کے نام پر ہونے والی اس سنگین بدعنوانی کو روکا جائے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اس نے حقائق سامنے لانے کی کوشش کی تو اسے اور اس کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا اس کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنایا جائے۔

ذرائع کے بقول اس سے قبل بھی کراچی میں کسٹمز انفورسمنٹ اور کسٹمز انٹیلی جنس کی جانب سے گزشتہ عرصے میں متعدد ایسے کنٹینرز پکڑے گئے، جو کروڑوں روپے کی غیر ملکی شراب سے بھرے تھے اور وہ غیر ملکی سفارتخانوں کی دستاویزات پر کلیئر کروائے جا رہے تھے۔ تاہم کلیئرنس کے بعد ملوث نیٹ ورک انہیں اپنے نجی گوداموں میں لے کر ڈمپ کرنے کے بعد پوش علاقوں کے ڈیلرز کو فروخت کر رہے تھے۔ ان وارداتوں میں کراچی سے اسلام آباد تک کئی بااثر افراد سامنے آئے تھے، جنہیں سیاسی اثر رسوخ بھی حاصل تھا۔ جس کی وجہ سے ان کے خلاف تحقیقات آگے نہ بڑھ سکی اور وہ گروپ آج بھی اس دھندے میں ملوث ہیں۔