فائل فوٹو
فائل فوٹو

کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو ۔۔۔ مراد سعید کیخلاف کمپین پر عمران برہم

امت رپورٹ :
ساری پی ٹی آئی ایک طرف اور مراد سعید ایک طرف ہے۔ 9 مئی کے مقدمے میں مفرور جواں سال ملزم کی حمایت میں عمران خان کی ایک حالیہ پوسٹ نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر مراد سعید کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے ؟ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مراد سعید پر حددرجہ نوازشات کا سلسلہ نیا نہیں، بلکہ بارہ برس پہلے شروع ہوگیا تھا، جب آج کا انتالیس سالہ مراد سعید محض ستائیس برس کا تھا۔

پارٹی میں مراد سعید کی تیز ترین ترقی کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے ذکر کرتے چلیں کہ حماد اظہر سمیت 9 مئی کے دیگر مفرور رہنماؤں کے خلاف پی ٹی آئی سوشل میڈیا کمپین چلتی رہی کہ وہ تحریک چلانے کے لیے منظر عام پر کیوں نہیں آرہے، لیکن عمران خان خاموش رہے۔ مگر جیسے ہی یہ چند آوازیں مراد سعید کے حوالے سے اٹھیں، عمران خان تڑپ اٹھے۔ حتیٰ کہ مراد سعید کے حق میں انہوں نے چند روز پہلے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر باقاعدہ پوسٹ کرتے ہوئے کہا ’’مراد سعید میرے وفادار ترین ساتھیوں میں سے ہے اورحقیقی آزادی کی تحریک کا اہم ترین حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔ اس کے بارے میں قیاس آرائیاں بند ہونی چاہییں۔ وہ میری ہدایات پر ہی انڈرگراؤنڈ ہے۔‘‘

مراد سعید پر عمران خان کی حددرجہ نوازشات پارٹی کے اندرونی حلقوں کے لئے نئی نہیں، وہ عرصہ درازسے عمران خان اور مراد سعید کی قرابت کے شاہد ہیں۔ پارٹی کے ان حلقوں میں یہ بھی ڈسکس ہوتا رہا کہ یہی قرابت مراد سعید کو عمران خان کا جانشین بنا سکتی ہے۔ یہ چہ میگوئیاں اس وقت زور پکڑ گئی تھیں، جب دو ہزار تئیس میں خود عمران خان نے مراد سعید کو اپنا ممکنہ جانشین قرار دیا تھا۔

تحریک انصاف میں مراد سعید کے حیران کن عروج اور عمران خان کے منظور نظر بننے کے معاملے سے آگاہ ایک سے زائد ذرائع نے بتایا کہ دو ہزار گیارہ تک مراد سعید کو پارٹی میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ پشاور یونیورسٹی میں تحریک انصاف کے طلبا ونگ آئی ایس ایف کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک تھا۔ لہٰذا پارٹی کے سیاسی معاملات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

ایک اہم پی ٹی آئی عہدیدار بتاتے ہیں’’آئی ایس ایف سے وابستہ مراد سعید کی حیثیت جلسوں میں زندہ باد، مردہ باد کا نعرہ لگانے والوں سے بڑھ کر نہیں تھی۔ میں ان دنوں پی ٹی آئی اسلام آباد کے دفتر کو سنبھالا کرتا تھا اور عمران خان کے بہت قریب تھا۔ لہٰذا پارٹی کے زیادہ تر رہنمائوں کو چیئرمین سے ملنا ہوتا یا ان سے کوئی کام ہوتا تو وہ مجھ سے رابطہ کیا کرتے تھے۔ ان دنوں عامر محمود کیانی نے اپنا ریئل اسٹیٹ کا دھندا تیز کر رکھا تھا اور وہ مختلف ہائوسنگ سوسائٹیز بنا رہا تھا۔ ان میں سے ہی ایک سوسائٹی میں اسد قیصر نے بھی پلاٹ خریدا تھا۔ اس مد میں اس نے عامر کیانی کو پچھتر لاکھ روپے دیئے تھے۔ لیکن وہ انہیں پلاٹ کا قبضہ نہیں دے رہا تھا۔

اس سلسلے میں صوابی سے اکثر اسد قیصر کا میرے پاس اسلام آباد آنا ہوا کرتا تھا۔ وہ منتیں کرتے تھے کہ عامر کیانی سے میں انہیں پلاٹ کا قبضہ دلادوں۔ اسد قیصر کے ساتھ اکثر مراد سعید بھی ہوا کرتا تھا۔ تاہم میں مراد سعید کو دفتر میں نہیں آنے دیتا تھا۔ لہٰذا اسد قیصر اسے باہر چھوڑ کر آیا کرتے تھے اور مراد سعید باہر گھوم پھر کر یا گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرتا۔‘‘

پارٹی عہدیدار کے مطابق پھر ایک روز اچانک ایک ایسی خبر آئی جس نے پارٹی کے اندر بہت سوں کو حیران کر دیا۔ معلوم ہوا کہ پارٹی میں نووارد مراد سعید ناصرف دو ہزار تیرہ کا انٹرا پارٹی الیکشن لڑرہا ہے، بلکہ وہ خیبرپختونخوا سے صوبائی صدر جیسے بڑے عہدے کا امیدوار ہے۔ اس عہدے کے لئے پارٹی کے دو ہیوی ویٹ اسد قیصر اور پرویز خٹک بھی آمنے سامنے تھے۔

عہدے دار کے بقول ان ہاتھیوں کے درمیان ’’آئی ایس ایف کے ایک چھوکرے‘‘ کا پارٹی کے اعلیٰ عہدے کے لئے الیکشن لڑنا حیران کن بات تھی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی جب پارٹی کے حلقوں میں یہ باز گشت سنائی دی کہ عمران خان یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ نوجوان قیادت کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا الیکشن میں یہ لڑکا جیتے گا اور یہ سب کے لئے سرپرائز ہوگا۔ سب حیران تھے کہ پارٹی میں اور بھی درجنوں متحرک نوجوان کارکنان ہیں۔ لیکن عمران خان کی سوئی مراد سعید پر ہی کیوں اٹک گئی ہے؟

غرض یہ کہ مراد سعید کے لئے عمران خان کی اس قدر نوازش اور اسے صوبائی صدر کے عہدے پر دیکھنے کی خواہش سب کے لئے اچھنبا تھی۔ الیکشن ہوگیا۔ تاہم عمران خان کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور مراد سعید ہار گیا۔ پرویز خٹک معمولی فرق کے ساتھ اسد قیصر سے یہ الیکشن ہار گئے تھے۔

یوں اسد قیصر دوسری بار صوبائی صدر بن گئے۔ اس انٹرا پارٹی الیکشن میں مراد سعید کو ستائیس سے زائد ووٹ پڑے۔ یعنی فتحیاب امیدوار کے مقابلے میں ووٹوں کی یہ تعداد نصف تھی۔ اس بات نے بھی سب کو حیران کیاکہ ایک نووارد کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کیسے پڑگئے؟

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک اور پی ٹی آئی عہدیدار کے بقول پارٹی میں اچانک اہم بن جانے والا مراد سعید جب عمران خان کی خواہش کے برعکس صوبائی صدارت کا الیکشن ہارگیا، تو اس کا ازالہ کرنے کے لئے پارٹی چیئرمین نے اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کر دیا۔ یوں دو ہزار تیرہ کا الیکشن لڑ کر مراد سعید پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنا۔ پارٹی کے بیشتر لوگ مراد سعید پر عمران خان کی حیران کن نوازشات پر حیران تھے۔ لیکن کسی میں سوال کرنے کی جرات نہیں تھی۔

عہدے دار کے مطابق دو ہزار تیرہ کا الیکشن جیتنے کے بعد ہی پارٹی میں مراد سعید کا اصل عروج شروع ہوا اور اس کا بنی گالا آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ نوازشات کا سلسلہ چلتا رہا۔ دو ہزار اٹھارہ میں بھی اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا اور ایک بار پھر وہ رکن پارلیمنٹ بن گیا۔ اس بار عمران خان کی خواہش پر اسے ایک سے زائد وزارتوں کا قلمدان بھی ملا۔ ساتھ ہی اس کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی لوگوں میں ہونے لگا اور عمران خان خود بھی پارٹی میٹنگز میں مراد سعید کی تعریفیں کرتے دکھائی دیتے اور پارٹی کے سینئر ترین رہنما یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہوتے۔

عہدیدار کے بقول مراد سعید کے انہی عروج کے دِنوں میں عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی کتاب منظر عام پر آئی تو مراد سعید کی تیز رفتار ترقی کو لے کر پارٹی کے کچھ حلقوں میں مختلف چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ لیکن کوئی اس پر کھل کر بات نہیں کرتا تھا۔ وقت گذرتا رہا اور پھر سانحہ 9 مئی ہوگیا تو یہ باتیں پس منظر میں چلی گئیں۔ پارٹی کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ اس کیس میں مراد سعید بھی تاحال مفرور ہے۔ اس کے باوجود اس کی خیبرپختونخوا کے حکومتی معاملات پر خاصی گرفت ہے۔

پشاور پی ٹی آئی کے ایک ذریعے کے بقول مراد سعید مفروری میں بھی اس قدر طاقت ور ہے کہ ناصرف اس کے آبائی حلقے سوات کے تمام معاملات اس کی مرضی سے چلائے جارہے ہیں بلکہ وہ صوبائی حکومت اور پارٹی کے اہم فیصلوں میں بھی شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے اب بھی عمران خان کی غیر متزلزل سپورٹ حاصل ہے، چنانچہ کسی میں جرات نہیں کہ اس کی حکم عدولی کرے یا اس کو آنکھیں دکھائے۔