عمران خان:
ٹیکس چوری میں ملوث تاجروں کے خلاف سخت حکمت عملی کے تحت ملک گیر آپریشن شروع ہوتے ہی ایف بی آر حکام نے اپنے تفتیشی افسران کو بے بس کردیا۔ پہلے ٹیکس چوری میں ملوث تاجروں کی گرفتاریوں سمیت ان کے خلاف تیز ترین اور موثر کاروائیوں کی ہدایات جاری کی گئیں۔ بعد ازاں گرفتاریوں کیلئے سخت شرائط نافذ کردی گئیں۔ جس کے نتیجے میں اربوں روپے کے ٹیکس فراڈ کے خلاف آپریشن ایک بار پھر متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ایف بی آر کے اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس قوانین کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اور متنازع مسئلہ رہا ہے۔ ایک جانب حکومت کا موقف ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر معیشت کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا۔ تو دوسری جانب کاروباری برادری برسوں سے ٹیکس حکام کی بے جا سختیوں اور مبینہ طور پر اختیارات کے غلط استعمال پر احتجاج کرتی رہی ہے۔ اور ہر آپریشن کے آغاز میں ہی اپنے وفود متحرک کرکے ارباب اختیار سے ملاقاتیں کرکے ریلیف لینے میں بھی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ اس ضمن میں حالیہ ہفتوں میں یہ تنازع شدت اختیار کر گیا، جب وفاقی حکومت نے سیلز ٹیکس ایکٹ کی دفعات 37 اے اور 37 بی کے تحت ایف بی آر کو وسیع پیمانے پر گرفتاری اور تحقیقات کے اختیارات دیے۔
ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق ملک گیر سطح پر تاجروں نے ہڑتالیں کیں اور کاروباری مراکز بند کردیئے۔ ان کا موقف تھا کہ ایف بی آر کے افسران کو دیئے گئے گرفتاری کے اختیارات کے نتیجے میں کاروباری طبقے کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ تاجر نمائندوں اور وزیرِاعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ جس کے بعد معاملہ مزید سنگین ہوگیا۔ اسی تناظر میں ملک کی بڑی کاروباری شخصیات نے ملک کی اعلیٰ سول اور عسکری شخصیات سے ملاقات کی۔ جس میں انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ جائز اور قانونی کاروباری سرگرمیوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی اور ٹیکس قوانین کا نفاذ منصفانہ انداز میں ہوگا۔
ذرائع کے مطابق کاروباری برادری کے دباؤ کے بعد ایف بی آر نے سیلز ٹیکس سرکلر نمبر 02 کے ذریعے ایک نیا پروسیجرل فریم ورک جاری کیا ہے۔ اس فریم ورک کے تحت کسی بھی ٹیکس فراڈ کیس میں گرفتاری کیلئے کئی سطحوں پر منظوری لازمی قرار دی گئی ہے۔ تاکہ کسی افسر کو صوابدیدی اختیار نہ مل سکے۔ اس نئے طریقہ کار کے مطابق کوئی بھی ان لینڈ ریونیو آفیسر صرف اس وقت انکوائری شروع کرسکے گا، جب کمشنر کی تحریری منظوری حاصل ہو۔ یہ منظوری صرف اس صورت میں دی جائے گی جب شواہد واضح طور پر کسی ٹیکس فراڈ یا قابلِ تعزیر جرم کی نشاندہی کرتے ہوں۔ مزید یہ کہ ملزم کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر انکوائری آگے نہیں بڑھائی جا سکے گی۔
انکوائری مکمل ہونے کے بعد تفصیلی رپورٹ کمشنر کو بھیجی جائے گی، جو فیصلہ کرے گا کہ کیس ختم کیا جائے یا باقاعدہ تحقیقات شروع کی جائیں۔ اگر کمشنر تحقیقات کی منظوری دے تو پھر یہ عمل زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں مکمل کرنا لازمی ہوگا اور نتیجہ اسپیشل جج کو بھیجا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سیلز ٹیکس ایکٹ کی دفعہ 37 اے کی ذیلی شق (8) کے تحت گرفتاری کا وارنٹ صرف اسی وقت جاری کیا جاسکے گا جب تین رکنی ایف بی آر کمیٹی کیس کا جائزہ لے اور اسے سنگین نوعیت کا قرار دے۔ یہ شق صرف ان کیسز پر لاگو ہوگی، جن میں مبینہ فراڈ کی مالیت پچاس ملین روپے سے زائد ہو۔
اس حوالے سے ایف بی آر نے ٹیکس فراڈ کی جامع تعریف بھی فراہم کردی ہے۔ اس تعریف کے مطابق جعلی یا جھوٹے انوائسز بنانا، جعلی کاغذات جمع کرانا، فرضی ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کلیم کرنا، ریکارڈ ضائع کرنا یا سسٹم میں جعلی اندراجات ٹیکس فراڈ میں شامل ہیں۔ سیکشن 73 کے غلط استعمال کو بھی ٹیکس فراڈ قرار دیا گیا ہے۔ خاص طور پر وہ اسکیمیں جن میں ادائیگیاں مختلف سپلائر اکاؤنٹس کے ذریعے دوبارہ ٹیکس دہندہ کو واپس پہنچادی جاتی ہیں۔
ایف بی آر کے سرکلر کے مطابق گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کیلئے کچھ شرائط لازمی ہوں گی۔ ان میں یہ خدشہ شامل ہے کہ ملزم ثبوتوں میں ردوبدل کر سکتا ہے یا ملک سے فرار ہونے کا امکان رکھتا ہے، یا پھر وہ تین نوٹس ملنے کے باوجود تحقیقات میں تعاون نہ کرے۔ مزید برآں کمشنر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ملزم بقیہ ٹیکس، جرمانہ اور سرچارج ادا کردے تو کیس کو کمپاؤنڈ کیا جاسکے اور عدالت میں مقدمہ چلانے سے گریز کیا جائے۔
ذرائع کے بقول ٹیکس نفاذ کے اس نئے فریم ورک کے ساتھ ہی حکومت نے فنانس ایکٹ 2025 کے ذریعے ایک اور سخت اقدام متعارف کرایا ہے۔ نئے سیکشن 114 سی کے تحت ایسے ٹیکس دہندگان جو ’غیر اہل‘ قرار دیئے جائیں گے، انہیں بڑے مالیاتی لین دین سے روک دیا جائے گا۔ ’اہلیت‘ کا تعین کسی شخص کے مالی وسائل کی بنیاد پر کیا جائے گا، جو اس کے حالیہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ یا سرمایہ کاری و اخراجات کی رپورٹ میں ظاہر ہوں گے۔
اگر کسی فرد کے پاس کم از کم 130 فیصد کیش اور کیش کے مساوی اثاثے موجود نہ ہوں تو وہ ’غیر اہل‘ شمار ہوگا۔ ایسے افراد سات ملین روپے سے زائد مالیت کی گاڑی خریدنے یا بیچنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ایک سو ملین روپے سے زیادہ مالیت کی جائیداد خریدنے یا منتقل کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔ ان افراد کو پچاس ملین روپے سے زائد سرمایہ کاری سیکورٹیز یا میوچل فنڈز میں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سوائے اس صورت کے جب سرمایہ کاری بالکل نئی ہو اور پہلے سے موجود اثاثوں کی فروخت یا منافع سے نہ کی گئی ہو۔ مزید یہ کہ ایک سو ملین روپے سے زیادہ کی بینک کیش نکلوانا بھی ان کیلئے ممنوع ہوگا۔ ذرائع کے مطابق یہ پابندیاں صرف رہائشی افراد پر لاگو ہوں گی۔ غیر مقیم افراد اور پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ان پابندیوں سے مستثنیٰ ہوں گی۔
ادھر کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایف بی آر نے کثیر سطحی منظوری کے نظام سے کچھ تحفظات دور کیے ہیں۔ لیکن گرفتاری کے اختیارات اب بھی ڈر اور بے یقینی پیدا کرتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت پہلے ٹیکس نظام کو سادہ اور شفاف بنائے۔ اس کے بعد سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔
دوسری جانب ایف بی آر افسران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر جعلی انوائسز اور فراڈ اسکیموں کے ذریعے اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر سخت اقدامات نہ اٹھائے جائیں تو ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ممکن نہیں ہوگا۔ افسران کا مزید کہنا تھا کہ یہ اقدامات حکومت کی دوہری حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ کیونکہ ایک طرف بڑے پیمانے پر ٹیکس فراڈ کی روک تھام اور دستاویزی معیشت کی جانب پیش قدمی کیلئے ایف بی آر کو سخت قوانین کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے اور پھر دوسری جانب جب ایف بی آر اپنی حکمت عملی بنا کر تفتیشی افسران کو سخت ہدایت جاری کرتی ہے تو حکومت تاجروں کی بات مان کر ایف بی آر افسران کے ہاتھ بھی باندھ دیتی ہے۔ اس بار بھی کاروباری برادری کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جائز کاروباری سرگرمیوں میں غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جائیں گی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos