کیٹرنگ ہائوس مالکان سمیت دیگر چھوٹے کاروباریوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے, فائل فوٹو
 کیٹرنگ ہائوس مالکان سمیت دیگر چھوٹے کاروباریوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے, فائل فوٹو

کراچی میں بھتہ خور پھر سرگرم ہوگئے

کاشف ہاشمی:
کراچی نے گزشتہ ایک دھائی کے دوران کئی سنگین جرائم اور پر تشدد ادوار دیکھے ہیں۔ 2013ء میں شروع ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم پر قابو پایا۔ اس آپریشن نے نہ صرف شہر میں امن وامان کی فضا قائم کی بلکہ کاروباری طبقے کے لیے بھی ایک نئی زندگی ثابت ہوا۔ کئی برسوں بعد شہری بلا خوف کاروبار کرنے لگے اور بھتہ خوری کے خاتمے نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی بحال کیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ پرامن فضا ایک بار پھر ماند پڑنے لگی ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں شہر قائد میں بھتہ خوری کی وارداتوں نے دوبارہ زور پکڑ لیا ہے۔ ضلع سٹی میں لیاری گینگ وار بادشاہ خان اور جمیل چھانگا گروپ اور ان کے دیگر گروپس کے کارندے زیر تعمیر عمارتوں پر بھتے کی پرچیاں پھینکنے، دستی بم سے حملوں اور فائرنگ کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔

دوسری جانب ضلع وسطی میں پکوان سینٹرز، کیٹرنگ ہائوسز اور چھوٹے کاروباری حضرات کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سرجانی ٹائون، نارتھ کراچی، نیو کراچی، لیاقت آباد، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اور ایف بی ایریا جیسے علاقوں میں مسلسل بھتے کی پرچیاں پہنچ رہی ہیں اور مزاحمت یا عدم توجہ کی صورت میں فائرنگ کے ذریعے خوف و ہراس پھیلایا جاتا ہے۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق ان وارداتوں کے پیچھے لیاری گینگ وار کا ایک گروہ عبدالصمد کاٹھیا واڑی عرف بھنگی عرف اردلی گروپ ملوث ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہ نیٹ ورک صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بیٹھے افراد کے ذریعے بھی چلایا جا رہا ہے۔ بھتہ خور گروہ انٹرنیشنل نمبرز سے کاروباری افراد کو فون کالز کرتے ہیں، پرچیاں بھجواتے ہیں اور مقامی کارندوں کے ذریعے فائرنگ کی وارداتیں کراتے ہیں۔ یہ حکمت عملی کاروباری طبقے کو ڈرانے اور انہیں مجبور کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے کہ وہ بھتے کی رقم ادا کریں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مقامی کارندوں کی گرفتاریاں تو کی جا رہی ہیں، لیکن اصل نیٹ ورک کو توڑنے میں تاحال کوئی بڑی کامیابی سامنے نہیں آئی۔

متاثرہ کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ پولیس صرف بڑے یا ہائی پروفائل واقعات کے بعد حرکت میں آتی ہے جبکہ روزمرہ کی بھتہ خوری کی وارداتیں صرف دعوئوں اور اعلانات تک محدود رہتی ہیں۔ کاروباری طبقہ اس بات پر بھی شاکی ہے کہ پولیس بعض اوقات شارٹ ٹرم کڈنیپنگ یا چھوٹی وارداتوں پر تو ردعمل دیتی ہے مگر بھتہ خوری جیسے سنگین معاملے میں خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ بھتہ خوروں کے طریقہ کار نے کاروباری طبقے میں خوف کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ پرچیاں ملتے ہی یا فائرنگ کے بعد کاروباری افراد اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے خاموشی سے رقم ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھتہ خوری کے خاتمے کے لیے قائم کیے گئے پولیس سیلز کی افادیت پر سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔

ماضی میں کراچی میں بھتہ خوری زیادہ تر لیاری گینگسٹرز اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے ذریعے کی جاتی تھی۔ مگر آپریشن کے بعد متعدد ملزمان بیرون ملک فرار ہوگئے۔ اب یہی نیٹ ورک بیرون ملک سے بیٹھ کر نہ صرف اپنے پرانے رابطوں کو بحال کر رہا ہے، بلکہ مقامی سطح پر بھی نئے کارندوں کو استعمال کر رہا ہے۔ کراچی کا امن و سکون ایک بار پھر خطرے میں ہے۔ بھتہ خور گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں نہ صرف شہریوں کے اعتماد کو مجروح کر رہی ہیں، بلکہ کاروباری طبقے کی مشکلات میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے دوبارہ وہی حکمت عملی اپنائیں گے جو 2013ء کے آپریشن کے دوران اختیار کی گئی تھی یا یہ عفریت ایک بار پھر پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے گا؟ کراچی پولیس کے افسران صرف اپنے وسائل پر کمی ہونے کی داستان سنائی دیتے ہیں کہ پولیس کے پاس وہ وسائل یا ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ ملزمان کا سراغ لگالیا جائے، یہ وسائل ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہے جو پولیس کی مدد کرنے کی ہامی تو بھرتے ہیں لیکن ان کی دلچسپی نظر نہیں آتی۔

بھتہ خور گروپس دستی بم اورفائرنگ سے اپنی طاقت کا جہاں استعمال کررہے ہیں وہیں وہ سب بڑا ہتھیار جدید ٹیکنالوجی کا بھی کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی مختلف اپیلکیشزکا بخوبی استعمال کرکے تاجروں اورشہریوں کو خوف میں مبتلا کررہے ہیں۔ جب کہ ان کی دیدا دلیری دیکھی جائے تو یہ گروپس پولیس کے اعلی افسران کو وی پی این کے ذریعے واٹس ایپ کال کرکے دھمکاتے بھی ہیں۔