اقبال عوان :
کراچی میں لانچ سازی کا شعبہ بیرون ملکوں کے آرڈر سے محروم ہونے لگا۔عرب ممالک میں کارگو لانچیں اور کراچی والوں کیلئے ٹرالر فشنگ لانچوں تک محدود ہو گیا۔ جون، جولائی میں پرانی لانچوں کی مرمت کا کام بھی کم ہو گا۔ مذکورہ شعبے میں چار ہزار سے زائد افراد روزگار حاصل کرتے ہیں۔ سرکاری سرپرستی نہ ہونے پر فشری کے ساحلی احاطے میں کھلے آسمان تلے لانچیں بنائی جاتی ہیں۔
حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے سبب اکثر اوقات آگ لگنے کی وجہ سے کروڑوں روپے کی زیر تعمیر لانچیں جل کر راکھ ہو جاتی ہیں۔ کاریگروں کا کہنا ہے کہ انہیں دیہاڑی موجودہ حالات میں کم ملتی ہے۔ جبکہ لانچیں بنوانے والوں کا کہنا ہے کہ ملکی و غیر ملکی لکڑی، دیگر مٹیریل 5 سال کے دوران کئی گنا مہنگا ہو گیا ہے۔ فشر کوآپریٹو کے ذمہ دار ناصر خان کا کہنا ہے کہ فشری میں بوٹ بورڈ کی زمین موجود ہے۔ تاہم 50 برس سے ورکشاپ کے بجائے کھلے آسمان تلے لانچیں بنائی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی فشری میں مرکزی بوٹ سازی کا کام ہوتا ہے۔ جبکہ ماڑی پور، کریکس اور ابراہیم حیدری کی جیٹیوں سمیت دیگر ساحلی علاقوں میں بھی لانچیں بنانے کا کام ہوتا ہے۔ 15/16 سال قبل کراچی فشری میں کارگو فشنگ، مسافر، آئل پانی سمیت دیگر مقاصد کیلئے لانچیں بنتی تھیں۔ خلیجی ممالک میں کارگو لانچیں زیادہ تیار کر کے بھیجی جاتی تھیں۔
جبکہ سال کے دو مہینے جون جولائی میں جب شکار پر پابندی ہوتی تھی تو کراچی سے ٹھٹھہ، بدین تک مختلف اقسام و سائز کی لانچیں مرمت کیلئے آتی تھیں۔ روزگار زوروں پر ہونے کی وجہ سے قرب و جوار میں موجود گینگ وار کے گروپ بھتہ وصول کرتے تھے اور ادا نہ کرنے پر لانچوں کو آگ لگادی جاتی تھی۔ اس طرح غیر ملکی لکڑی، کیمیکل کی وجہ سے آگ پھیل کر کئی زیر تعمیر لانچوں کو بھی لپیٹ میں لیتی تھی۔ اب مرمت اور نئی لانچ سازی کا کام بہت کم ہوگیا ہے۔
فشر کوآپریٹو کے ناصر خان کا کہنا ہے کہ اب کارگو لانچیں ایران تیار کر کے بھیجتے ہیں۔ وہاں سے دبئی میں فروخت کر دی جاتی ہیں کہ کراچی کے کاریگر دنیا بھر میں ہاتھ کے کام کی وجہ سے مشہور ہیں۔ مشین کا استعمال کم ہوتا ہے۔ لانچ سازی کا شعبہ بری طرح خراب ہوتا جارہا ہے، کیونکہ سرکاری سرپرستی حاصل نہیں۔ اگر سپورٹ ملتی اور ان کو رجسٹر کر کے ورکشاپوں میں کام ہوتا تو کاریگروں کو بیرون ملکوں سے ٹھیکے زیادہ ملتے۔
غیر ملکی لکڑی کا استعمال کارگو لانچوں میں زیادہ ہوتا ہے کہ کارگو لانچوں میں جانور، فروٹ، سبزی، اجناس، گوشت، بھیجا جاتا ہے۔ اب نئی لانچیں کم بنتی ہیں کہ دس سال قبل ایک کروڑ میں بننے والی چار پانچ کروڑ میں بنتی ہے۔ جبکہ ملکی و غیر ملکی لکڑیاں، میٹریل، کاریگروں کی دیہاڑی زیادہ ہوگئی ہے۔ آج کل جہاں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ وہیں فشری میں لانچ سازی اور مرمت کا کام کم آنے پر اچھے ماہر کاریگرز بھی مچھلیاں اور جھینگوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔
لانچ سازی کرنے والے کاریگر رفیق کا کہنا تھا کہ یہ شعبہ خسارے میں اس لیے جا رہا ہے کہ سرکاری طور پر سرپرستی نہیں۔ سیکورٹی کا فقدان الگ ہے۔ یہاں آگ بجھانے کا بھی تاحال کوئی مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ آگ لگ جائے یا لگادی جائے تو فائر بریگیڈ کے آنے تک لانچیں راکھ ہو جاتی ہیں۔ کاریگر ہاشم کا کہنا ہے کہ وہ کھڈا مارکیٹ کا رہائشی ہے اور اس کے باپ دادا بھی یہ کام کرتا تھا۔ اس وقت صرد 15 فیصد آرڈر ملتے ہیں۔ ورنہ پہلے کارگو اور فشنگ لانچوں کی بڑی تعداد بنتی تھی اور پرانی 5 سے 6 ہزار چلنے والی فشنگ لانچوں کی مرمت بھی کی جاتی تھی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos