ارشاد کھوکھر:
ملک بھر میں سیلاب کے باعث ایک جانب کروڑوں افراد مایوسی کا شکار ہیں تو دوسری جانب دریائے سندھ کے ماہی گیروں کے چہرے کھل اٹھے ہیں جس کا سبب پلہ مچھلی کا شکار بڑھ جانا ہے۔ واضح رہے کہ صحت کے حساب سے سپر فوڈ کہلانے والی پلہ مہنگی ترین مچھلی ہے۔ یوں سیلاب کے بعد پلہ مچھلی کے وافر شکار کے ذریعے جہاں ماہی گیروں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ وہیں مچھلی کھانے کے شوقینوں کو وافر مقدار میں ’’سپر فوڈ‘‘ دستیاب ہوگا۔
پلہ مچھلی کی تاریخ بھی اتنی پرانی ہے جتنی خود دریائے سندھ کی تاریخ ہے۔ پلہ مچھلی کا شکار کرنا جھیلوں اور سمندر میں ماہی گیری کرنے والے ماہی گیروں کے بس کی بات نہیں۔ یہ شکار صرف دریائے سندھ کے ماہی گیر ہی آسانی سے کرتے ہیں۔ یہ وہ مچھلی ہے جس کو پکانے کے ساتھ کھانے کا سلیقہ بھی الگ ہے۔ یہ مچھلی اصل میں سمندر کی پیداوار ہے لیکن سیلاب کی صورت حال میں میٹھے پانی میں سفر شروع کر دیتی ہے جس سے اس کا ذائقہ منفرد ہو جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مذکورہ مچھلی کا شکار پنجند تک بھی ہوتا تھا۔ لیکن بیراجز کے بعد اب اس کا شکار زیادہ تر کوٹری بیراج تک محدود ہو گیا ہے۔ اس مچھلی کا تعلق سندھ کی ثقافت سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ مچھلی اتنی مہنگی ہے کہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اس کو کھانے کی صرف حسرت ہی کر سکتے ہیں۔ جبکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی زیادہ سکت نہیں رکھتے۔
پلہ مچھلی کی کئی خصوصیات ہیں۔ اس کا شکار تو دریائے سندھ میں ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مچھلی دریائے سندھ میں انڈے نہیں دیتی۔ سردیوں کے موسم میں جب دریا سوکھ جاتا ہے تو یہ مچھلی ضلع ٹھٹھہ، ضلع سجاول اور بدین میں کے ٹی بندر، شاہ بندر، کھاروچھان کے علاقوں میں واپس ڈیلٹا کی طرف جاکر وہاں پر موجود تمر کے درختوں اور پودوں میں انڈے دیتی ہے۔
اگر دریائے سندھ میں سیلاب کی صورتحال نہ ہو یا یوں کہیں کہ ڈائون اسٹریم کوٹری بیراج سے سمندر میں دریا کا پانی نہیں جاتا تو اس مچھلی کا شکار نہیں ہوتا۔ لیکن جب بھی دریا میں ڈیلٹا کی طرف پانی بڑھتا ہے تو یہ مچھلی دریائے سندھ میں پانی کے مخالف سمت اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ یوں کھارے پانی سے میٹھے پانی میں شامل ہونے کے باعث اس کا ذائقہ منفرد ہو جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دریائے سندھ پر بیراجز وغیرہ تعمیر نہیں ہوئے تھے اور دریا اپنی قدرتی گزرگاہوں سے جہاں جہاں سے بہتا تھا، وہاں پر پلہ مچھلی کا شکار ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ پنجاب میں پنجند تک بھی پلہ مچھلی پائی جاتی تھی۔ لیکن بیراجز کی تعمیر کے بعد دریا میں اس کا سفر محدود ہوتا گیا۔
1932ء میں جب سکھر بیراج تعمیر ہوا تو اس مچھلی کا شکار ڈیلٹا سے لے کر سکھر بیراج تک محدود ہوگیا۔ اس کے بعد 1960ء کی دہائی میں کوٹری بیراج تعمیر ہونے کے باعث اس مچھلی کا سفر اب زیادہ تر کوٹری بیراج تک محدود ہے۔ بیراجز اور ڈیمز تعمیر ہونے سے قبل پورا سال پانی موجود ہوتا تھا اور اس دور میں گلگت بلتستان سے لے کر سمندر تک مواصلات کا بڑا ذریعہ دریائے سندھ ہی ہوتا تھا۔ جس کے باعث اس مچھلی کا شکار صرف موسم گرما میں نہیں بلکہ پورا سال ہوتا رہتا تھا۔
کوٹری بیراج تعمیر ہونے سے قبل پلہ مچھلی کے شکار کا حب سکھر تھا اور ان دنوں میں پلہ مچھلی کا وزن دو سے ڈھائی کلو تک بھی ہوتا تھا۔ لیکن بعد ازاں اس کا سفر کوٹری بیراج تک محدود ہونے کے باعث اس کا وزن بھی کم ہوگیا ہے۔ اب زیادہ تر ڈھائی سے تین پائو وزن کا شکار ہوتا ہے۔ ماہی گیروں کے مطابق اس مچھلی کا شکار سمندر میں بھی تھوڑا بہت ہوتا ہے۔ لیکن اس کا وزن بہت کم ہونے کے ساتھ اتنی لذیذ نہیں ہوتی۔ یہ وہ واحد مچھلی ہے جس کی فارمنگ نہیں ہوتی۔ اس کا شکار دریائے سندھ سے ہی جڑا ہوا ہے۔
دریائے سندھ کے پرانے ماہی گیروں نے نمائندہ امت کو بتایا کہ ایک زمانہ تھا جب مذکورہ مچھلی کے شکار کیلئے باریک جال استعمال نہیں کیے جاتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے اب باریک جال بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ جس کے باعث ایک پائو، ڈیڑھ پائو والی پلہ مچھلی کا شکار کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ مچھلی کا اصل ذائقہ کم از کم ایک کلو یا اس سے زیادہ وزن والے دانے میں ہوتا ہے۔ کیونکہ میٹھے پانی میں زیادہ سفر کرنے کے باعث نہ صرف اس کا وزن بڑھتا ہے۔ بلکہ اس کا ذائقہ مزید لذیذ ہوتا جاتا ہے۔
دریائے سندھ کے ماہی گیروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت بھی دریا میں یومیہ منوں کے حساب سے شکار ہوتا ہے۔ لیکن اس مچھلی کے شکار میں زیادہ اضافہ اس وقت ہوگا جب دریا میں سیلاب کی صورت حال تھم جائے گی اور پانی کا بہائو معمول پر آجائے گا۔ کیونکہ پانی کے تیز بہائو میں اس مچھلی کے شکار کیلئے جال نہیں پھینکے جاتے۔ کیونکہ پانی جالوں کو بہا کر لے جائے گا۔
اس وقت اونچے درجے کے سیلاب کی صورتحال میں بھی پلہ مچھلی کا شکار ہو رہا ہے۔ اور اس مچھلی کا شکار کرنا ہر ایک ماہی گیر کے بس کی بات نہیں۔ صرف وہ ماہی گیر ہی اس مچھلی کا شکار کرتے ہیں، جو دریا کے پانی کی گزرگاہوں سے واقف ہوتے ہیں۔ جنہیں پتہ ہوتا ہے کہ پانی کا دبائو کہاں کم ہے یا پانی میں کس کس جگہ ٹھہرائو ہے۔ اس مچھلی کا شکار کشتیوں میں ہی ہوتا ہے۔ اور یہ ایک دو افراد کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ بلکہ چار سے پانچ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں۔ پہلے مذکورہ کشتیاں باد بان کے ذریعے چلتی تھیں۔ لیکن اب ان کی جگہ ڈیزل موٹر نے لے لی ہے۔ اس مچھلی کے شکار کیلئے کوئی ٹھیکیداری نظام یا لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ حق دریا کے متعلقہ ماہی گیروں کے پاس ہوتا ہے۔
اس مچھلی کے شکار کیلئے دریا کے اندر پہلے جال بچھائے جاتے ہیں۔ جنہیں کئی گھنٹے پانی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد وہیں ماہی گیر کشتی کے ساتھ جاکر جال کھینچ کر کشتی میں ڈالتے ہیں۔ پھر جالوں سے مچھلی نکالی جاتی ہے۔ دریائے سندھ کے ماہی گیروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایک کشتی میں سوار ماہی گیروں نے اگر دیکھا کہ کسی اور نے یہاں جال بچھایا ہوا ہے تو دوسرے ماہی گیر اس جگہ کو خود چھوڑ کر کسی اور جگہ پر جاکر جال بچھاتے ہیں۔ یہ اخلاقیات انہوں نے خود اپنے آپ پر لاگو کی ہیں۔ اور ان کے درمیان مچھلی کے شکار پر آپس میں تنازعات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
پلہ مچھلی دیگر مچھلیوں کے مقابلے میں زیادہ خستہ ہوتی ہے۔ جنہیں بڑے محتاط طریقے سے پکایا جاتا ہے۔ تاکہ مچھلی ٹوٹ نہ جائے۔ دیگر مچھلیوں کی طرح یہ مچھلی بھی صحت کیلئے نہایت مفید ہے۔ خصوصاً امراض قلب کے لئے۔ دنیا میں اور بھی دریا بہتے ہیں، جو ڈیلٹا میں سمندر کے ساتھ ملتے ہیں۔ لیکن ہر دریا میں یہ مچھلی نہیں پائی جاتی۔ البتہ ایران کے بندر عباس کے علاقے میں بھی پلہ مچھلی پائی جاتی ہے۔ لیکن اس کا ذائقہ دریائے سندھ کی پلہ مچھلی جیسا نہیں ہوتا۔ مارکیٹ میں اکثر جب دریائے سندھ میں ڈیلٹا کا پانی نہیں جاتا تو ایران کے پلے بھی آتے ہیں۔ لیکن وہ دیکھنے میں ہی دریائے سندھ کی پلہ مچھلی سے مختلف ہوتے ہیں۔ جبکہ دریائے سندھ کی پلہ مچھلی کے چھلکے اس طرح سفید اور چمکدار ہوتے ہیں کہ موتیوں کا گمان گزرتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ سندھ کے ہر گھر میں پلہ مچھلی کھائی جاتی تھی۔ لیکن اب وہ صورت حال نہیں۔ کیونکہ غربت کے اس دور میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد مذکورہ مچھلی کھانے کی صرف حسرت ہی کر سکتے ہیں۔ جبکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے بھی مذکورہ مچھلی خریدنا آسان نہیں۔ یہ وہ مچھلی ہے جو دیگر مچھلیوں کی طرح تول کے نہیں دی جاتی۔ بلکہ دانوں کے حساب سے بکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت سوا سے ڈیڑھ کلو کی پلہ مچھلی کی قیمت 13 سے 15 ہزار روپے تک۔ ایک کلو والے دانے کی قیمت سات سے 10 ہزار روپے، آدھا کلو اور ڈیڑھ پائو والے دانے کی قیمت ایک ہزار سے 2 ہزار روپے تک ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب دریا میں سیلاب کی صورتحال ہوتی ہے تو مچھلی کے بیوپاری متعلقہ ماہی گیروں کو قرضہ دیتے ہیں۔ اور ماہی گیر جب شکار کرتے ہیں تو ان میں سے آدھی مچھلی وہ کشتیوں میں ہی فروخت کر دیتے ہیں۔ اور ان کی مچھلی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتی ہے۔ مذکورہ مچھلی خریدنے والوں کو پتہ ہے کہ کہاں یہ مچھلی ملے گی۔ خصوصاً ماہی گیر مذکورہ مچھلی فجر کے وقت یا شام 3 بجے سے رات 8 بجے تک دریا سے واپس کنارے پر آنے کے بعد فروخت کرتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos