سخت سیکیورٹی کے باعث جعفر ایکسپریس پر حملہ نہیں کیا جا سکا،فائل فوٹو
 سخت سیکیورٹی کے باعث جعفر ایکسپریس پر حملہ نہیں کیا جا سکا،فائل فوٹو

ریل کے ذریعے بلوچستان کا رابطہ ملک سے پھر کٹ گیا

نواز طاہر:
بلوچستان کا ملک کے دیگر حصوں سے ریل کے ذریعے رابطہ ایک بار پھر کٹ گیا ہے اور مزید ایک ہفتے تک بحال ہونے کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔ یہ رابطہ ملک کے چاروں صوبوں سے گزرنے اور کوئٹہ، پشاور کے درمیان چلنے والی جعفر ایکسپریس کے تیسرے حادثے سے کٹا ہے۔ جو منگل کو پیش آیا اور ٹریفک بلاک ہونے پر جعفر کے ساتھ ساتھ کراچی اور کوئٹہ کے درمیان چلنے والی بولان ایکسپریس بھی بند ہوگئی۔ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور خیال کیا جارہا ہے کہ ٹرین کی سخت سیکورٹی کے باعث ممکنہ طور پر اس پر حملہ نہیں کیا جا سکا۔

پیر کی صبح پشاور سے کوئٹہ جانے والی چالیس ڈائون جعفر ایکسپریس شام کو اپنی منزل کے آخری اسٹیشن کوئٹہ سے پہلے تفتان اور سبی سیکشن کے راستے الگ کرنے والے جنکشن سپیزنڈ سے چند کلو میٹر دشت سے گزر رہی تھی۔ جہاں برساتی نالے کے دو دروں والے پل کو عبور کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی۔ اس وقت ٹرین میں کوئٹہ جانے والے دو سو ستّر کے قریب مسافر سوار تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ جیسے ہی ٹرین کے لوکو موٹیو (انجن) نے یہ پل عبور کیا تو پل کے ساتھ نصب کیا جانے والا بم پھٹ گیا اور انجن سے پیچھے تیسرے نمبر کی کوچ الٹ گئی۔ ٹریک ٹوٹ گیا اور اس سے ملحقہ عقبی پانچ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ اس سے پہلے کہ اس حادثے کا سبب بننے والے عناصر اگلی کارروائی کرتے ٹرین میں سوار سیکیورٹی اہلکاروں نے فوری طور پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور ساتھ ہی مسافروں کو بھی ریسکیو کیا۔ اس حادثے میں پانچ افراد کو معمولی چوٹیں آئیں۔

اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کوئٹہ سے پشاور جانے والی انتالیس اپ جعفر ایکسپریس اور اور کوئٹہ سے کراچی جانے والی چار ڈائون بولان ایکسپریس بلوچستان کی حدود میں دوڑ رہی تھیں۔ جن کی نگرانی مزید سخت کردی گئی اور ٹریک کی بھی از سر نو پڑتال کی گئی۔ اس کے بعد یہ ٹرینیں منزل کی طرف روانہ کی گئیں اور ساتھ ہی ٹرین کا آپریشن معطل کردیا گیا۔ جس کے بعد سے تاحال بلوچستان کا ریل رابطہ ملک کے باقی حصوں سے کٹا ہوا ہے۔

کوئٹہ اسٹیشن پر حادثے کی اطلاع ملتے ہی ہنگامی آپریشن کیا گیا۔ تاہم اس سے پہلے پورے علاقے کی پڑتال کرکے سیکیورٹی کلیئرنس دی گئی۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سپیزنڈ سے کوئٹہ کے درمیان بھی سیکورٹی کے حوالے سے سیریس ایریا ہے۔ جس میں ٹرین پر پتھرائو کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور یہاں مسافروں کو کھڑکیاں نہ کھولنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ صرف سیکورٹی اہلکار حفاظتی تدابیر اپناکر نگرانی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سینٹرل ایشیا کے راستے پر کوئٹہ تفتان سیکشن بھی معطل ہوگیا ہے اور کوئٹہ، تفتان کے راستے بیرونی دنیا کا رابطہ کٹ جانے پر کوئٹہ سے تفتان جانے والی مال بردار گاریاں بھی معطل کردی گئی ہیں۔کوئٹہ آنے والی فریٹ ٹرین معطل ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سیکشن پر چلنے والی تین مال گاڑیاں (فریٹ ٹرینیں) مختلف اسٹیشنوں پر روکی گئی ہیں۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان ریلوے نے فتنہ الہندوستان کی پشت پناہی میں بدترین دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود سیکورٹی اداروں کے تعاون سے ایک چلینج کے طور پر ٹرین آپریشن جاری رکھا ہے اور اس مقصد کیلئے سیکورٹی بھی بڑھائی ہے اور حفاطتی اقدامات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹریک کی مکمل کلئیرنس کے ساتھ ٹرین چل رہی تھی اور خیال کیا جارہا ہے کہ کلئیرنس ملنے کے بعد دہشت گردوں نے مختصر وقت میں بم نصب کیا۔ تاہم ٹرین کی سخت سیکیورٹی کے باعث وہ ممکنہ طور پر مزید کارروائی نہ کرسکے۔

ادھر ذرائع کے مطابق عشا کے وقت آخری بوگی بھی کرین نے اٹھالی تھی اور اب ان بوگیوں کو جائے حادثہ سے کوئٹہ یارڈ منتقل کرنے کا عمل جاری ہے اور یہ جائزہ لینا بھی باقی ہے کہ یہ پل کس حد تک متاثر ہوا ہے۔ ریلوے ذرائع کے مطابق اگر پل ناقابلِ استعمال پایا گیا تو پھر کوئٹہ سے ٹرین کا آپریشن ایک ہفتے سے زائد معطل رہنے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹریک کی مرمت کا کام شروع کر دیا گیا ہے جو دو ایک روز میں مکمل ہو جائے گا اور مکمل سیکورٹی کلیئرنس کے تحت ہی ٹرین چلے گی۔ اس حادثے میں ریل کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں ریلوے حکام نے سرکاری طور پر تفصیلات جاری نہیں کیں اور ریل کے افسر بھی اس ضمن میں گفتگو سے گریزاں ہیں۔