تحریر: غلام حسین غازی
پشاور میں وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی میزبانی میں پی ٹی آئی کا 27 ستمبر کی شام عظیم الشان جلسہ ایک نئی تاریخ رقم کر گیا۔ یہ جلسہ نہ صرف قومی سیاست کا ایک سنگ میل ثابت ہوا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی جمہوری جدوجہد کو اجاگر کرنے والا ایک زندہ و تابندہ ثبوت بن کر ابھرا ہے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اس جماعت کے سربراہ کی ایک سادہ کال پر لاکھوں لوگوں کا یہ اجتماع پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت اور جمہوری لچک کی زندہ تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اس پارٹی کی سیاسی مخالف وفاقی اور پنجاب حکومت کے دباؤ اور کریک ڈاؤن کے باوجود ہوا ہے۔ میزبان اور خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قائدانہ بصیرت نے اس جلسے کو ایک عالمگیر مسلمہ سیاسی دستاویز کی شکل دے دی جو نہ صرف صوبائی حقوق کی حفاظت بلکہ قومی اتحاد کی بنیاد رکھتی ہے۔ اس جلسے کی کامیابی اور اس کی قومی و عالمی شہرت سے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کی جھلک واضح طور پر نظر آگئی اور واضح ہو گیا کہ یہ محض ایک جلسہ نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔
اگرچہ جلسے کی کامیابی کی بنیاد تو پی ٹی آئی کے سیاسی اسیر رہنما کی غیر متزلزل عوامی اپیل تھی مگر اس کی منصوبہ بندی اور انتظامات میں علی امین گنڈاپور کی انتظامی بصیرت نمایاں تھی۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے قلب میں رنگ روڈ پر اس عوامی ریلی کیلئے بہترین ٹریفک اور سخت ترین سیکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے جن میں 1,451 پولیس اہلکار، 508 ٹریفک پولیس اور قریبی عمارتوں پر پولیس سنائپرز کی تعیناتی شامل تھی۔ اس ریلی میں شرکت سے روکنے کیلئے مخالف حکومتوں کے تمام تر جبر اور رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں کی ٹولیوں میں کارکن پنجاب، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے پہنچے۔ جلسے میں خواتین کی نمایاں شرکت بھی دیدنی تھی۔ علیمہ خان، عظمی خان اور نوریں نیازی کی موجودگی اور سٹیج پر آنے کی بجائے پنڈال میں عام کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہوکر شرکت نے اسے چار چاند لگائے۔ جلسہ ٹی وی چینلز پر نشر نہ ہو سکا مگر سوشل میڈیا خاص طور پر ایکس، فیس بک اور یوٹیوب پر لائیو سٹریمنگ نے اسے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں تک پہنچا دیا۔ #پشاور_پاورشو، #انقلاب_کی_للکار_پشاور_سے اور #خان_کی_کال_پر_عوامی_ریفرنڈم جیسے ہیش ٹیگس راتوں رات وائرل ہو گئے، لوگ تبصرے کرتے رہے کہ "عمران خان کی مقبولیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا”۔ یہ جلسہ 10 ماہ کی سیاسی خاموشی کے بعد پہلا بڑا سیاسی اور عوامی مظاہرہ تھا جس نے ثابت کر دیا کہ پی ٹی آئی کی تحریک اب بھی زندہ اور ورکر متحد ہیں۔
قومی سطح پر یہ جلسہ ایک ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کر گیا جہاں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے "چوری شدہ مینڈیٹ”، 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت اور آزاد عدلیہ و آزاد میڈیا کی بحالی جیسے مطالبات نے عوامی جذبات کو گرمایا۔ ڈان نیوز، دی نیوز اور نیشن جیسے قومی اخبارات نے اسے "خیبر پختونخوا کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ” قرار دیا۔
وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے جلسے سے بحیثیت میزبان خطاب میں وفاقی حکومت پر صوبائی وسائل (پانی اور معدنیات) کی چوری کا الزام لگایا، آپریشنز کی مخالفت کی اور افغانستان سے ڈائلاگ کی تجویز دی۔ ان تازہ بیانات نے جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حالیہ سرگرمیوں (جیسے ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں حملوں) کے تناظر میں حساس تھے، علی امین گنڈاپور کی سیاسی بصیرت کو مزید اجاگر کیا۔ انہوں نے نہ صرف صوبائی خودمختاری کا دفاع کیا بلکہ امن و استحکام کی راہ بھی دکھائی، یہ واضح کرتے ہوئے کہ "صوبائی حکومت نئے آپریشنز کی حمایت نہیں کرے گی اور نہ ہی نقل مکانی کی اجازت دے گی”۔ جلسے میں بعض کارکن مردان سے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان کی سٹیج پر موجودگی سے ناراض نظر آئے اور اس کا اظہار خالی بوتلیں پھینکنے سے کیا مگر علی امین گنڈاپور کی پرجوش تقریر نے اسے بے اثر کر دیا اور ماحول کو آنا فانا خوشگوار بنیاد فراہم کی۔ یعنی علی امین نے علی محمد خان کی لاج رکھ لی۔ یہ واقعہ دراصل وزیراعلی کی بحران مینجمنٹ کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔
جلسے سے پارٹی کے مرکزی و صوبائی قائدین نے کھل کر خطاب کیا جبکہ جلسے میں پیش کردہ قراردادوں کے مطابق بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی مذمت اور صوبائی وسائل کے مقامی استعمال کا مطالبہ کیا گیا جو قومی سطح پر اتحاد کی علامت قرار پائے۔ ایکس پر، صارفین نے اسے "پاکستان کا فیصلہ” قرار دیا
عالمی سطح پر پشاور جلسہ نے پاکستان کی سیاسی جدوجہد کو ایک گلوبل بیانیہ بنا دیا۔ پی ٹی آئی یو ایس اے کی ایک پوسٹ نے اسے "گلوبل پاکستان” کا حصہ قرار دیا۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی برادری نے اسے قومی اتحاد کا عکاس کہا۔ یہ مظہر جو افغانستان کی سرحد اور دہشت گردی کے خطرات کے پس منظر میں اہم ہے، علی امین گنڈاپور کی سفارتی بصیرت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ان کی افغانستان سے مذاکرات کی تجویز نے عالمی میڈیا میں پاکستان کو ایک پرامن حل تلاش کرنے والا ملک دکھایا، جو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں (2024-2025 میں اضافہ کی نشاندھی) کے مقابلے میں ایک متبادل راہ پیش کرتی ہے۔ یورپی اور امریکی مبصرین نے اسے "جمہوریت کی بحالی کی آواز” کہا جو پاکستان کی سیاسی استحکام کیلئے عالمی توجہ مبذول کر رہا ہے۔
علی امین گنڈاپور کی قائدانہ صلاحیتیں اس جلسے کی روح رواں تھیں۔ ایک سابق سکواش کھلاڑی سے سیاست میں داخل ہونے والے علی امین گنڈاپور نے 2013ء سے لے کر اب تک، متعدد انتخابات جیتے خاص طور پر 2024ء میں قومی پائے کے لیڈر مولانا فضل الرحمان کو 93,443 ووٹوں سے شکست دی۔ بطور وزیر اعلیٰ، ان کی انتظامی بصیرت صحت انصاف کارڈ کی بحالی (6 ارب روپے کی ادائیگیاں)، احساس روزگار پروگرام (1 کروڑ روپے تک قرضے) اور بلین ٹری پلس پروجیکٹ (جنگلات 12فیصد بڑھانا) میں جھلکتی ہے۔ جلسے میں ان کی تقریر نے جو خیبرپختونخوا میں فوجی آپریشنز کی مخالفت سے لے کر آرمی چیف سے عمران خان کے معاملے کی اپیل تک پھیلی، انہیں ایک متوازن لیڈر دکھایا۔ قومی و سیاسی تنازعات جیسے 9 مئی 2023 کے مقدمات اور آڈیو لیک کیس کے باوجود، مخالفین کی ان سے بیک ڈور رابطوں کی حکمت عملی نے سیاسی استحکام کو یقینی بنایا۔ علی امین گنڈاپور کی بصیرت یہ ہے کہ وہ عوامی جذبات کو سمجھتے ہیں۔ پشتون قبیلے کی روایات سے لے کر قومی مسائل تک سلجھانے میں انہیں زبردست ملکہ حاصل ہے جبکہ قومی و علاقائی تنازعات کو پرامن ڈائیلاگ کی طرف موڑنا بھی انہی کا خاصہ ہے۔ انکی یہ صلاحیتیں، جو جلسے کی کامیابی میں مرکزی حیثیت کی حامل تھیں، پاکستان کو انتشار سے بچانے کی ضمانت ہیں۔
اس جلسے کا تفصیلی جائزہ یہ بتاتا ہے کہ یہ محض ایک عوامی مظاہرہ نہیں بلکہ ایک سیاسی انقلاب کی بنیاد ہے۔ قومی سطح پر، یہ وفاقی دباؤ کے خلاف صوبائی مزاحمت کی علامت بنا، جبکہ عالمی طور پر، یہ پاکستان کی جمہوریت کو گلوبل ایجنڈے پر لے آیا۔ علی امین گنڈاپور کی قائدانہ چابک دستی، کامیابیوں، انتخابی فتوحات، ترقیاتی منصوبوں اور بحرانوں کے پائیدار حل کی طرف نشاندھی نے جلسے کو ایک متحد اور مثبت تحریک کی شکل دی۔
پشاور کا یہ عظیم الشان جلسہ ثابت کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کی پر امن سیاسی تحریک بدستور پاکستانیوں کی شریانوں میں دوڑ رہی ہے۔ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کی جڑیں پاکستان کے تمام صوبوں بلکہ کونے کونے میں پھیل چکی ہیں اور قومی یک جہتی کی علمبردار جماعت بن چکی ہے۔ دوسری جماعتوں کے برعکس اس پارٹی کا کوئی عسکری ونگ ہے اور نہ ہی یہ تصادم اور انتشار کی سیاست پر یقین رکھتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی بصیرت افروز قیادت اس سیاسی سفر کو صحیح سمت دے رہی ہے۔ پاکستان زندہ باد
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos