حساس اداروں کی رپورٹس میں نشاندہی کے بعد وفاقی حکومت نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا، فائل فوٹو
حساس اداروں کی رپورٹس میں نشاندہی کے بعد وفاقی حکومت نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا، فائل فوٹو

رفاہی اداروں کے اکائونٹس منی لانڈرنگ کیلیے استعمال ہونے کا انکشاف

عمران خان :
پاکستان کے بعض بڑے خیراتی و رفاہی اداروں کے اکائونٹس منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے بعد وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو بڑے کریک ڈاؤن کا ٹاسک دے دیا، نجی بینکوں اور اسٹیٹ بینک کے کردار پر بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

’’امت‘‘ کو اسلام آباد ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے اہم ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان میں رفاہی اور خیراتی اداروں کو ملنے والے فنڈز کے حوالے سے ایک بڑے مالیاتی اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے۔ جس نے نہ صرف حکومتی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بلکہ عوامی سطح پر بھی سخت سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق درجنوں معروف اور سینکڑوں چھوٹی بڑی این جی اوز کے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرنے اور منی لانڈرنگ کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ جس میں بڑے کمیشن کے عوض اربوں روپے اندرون اور بیرون ملک منتقل کیے جاتے رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں نجی بینکوں کی سہولت کاری اور اسٹیٹ بینک کی کمزور نگرانی بھی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔

تاہم ذرائع کے بقول وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کو اس وقت سخت تشویش لاحق ہوئی جب حساس اداروں کی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ چند بڑے خیراتی و رفاہی ادارے، جو عوام میں اعتماد کی علامت سمجھے جاتے ہیں، ان کے اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی کابینہ کی ایک اہم میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ ایف آئی اے کو فوری طور پر اس نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاؤن کی ذمہ داری دی جائے۔

اس نیٹ ورک کے طریقہ واردات کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ، یہ عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کرپشن، اسمگلنگ، ٹیکس چوری اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے حاصل شدہ کالا دھن مختلف طریقوں سے خیراتی اداروں کے اکاؤنٹس میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس کے بدلے یہ ادارے یا ان کے ذمہ داران مخصوص شرح کے مطابق کمیشن وصول کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہی رقوم یا تو مقامی طور پر قانونی کاروبار میں لگائی جاتی ہیں یا پھر بین الاقوامی سطح پر ’’ڈونیشن‘‘ کے نام پر بیرون ملک منتقل کر دی جاتی ہیں۔ اس پورے عمل نے رفاہی و خیراتی اداروں کے تصور کو داغ دار کر کے رکھ دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس پورے نظام میں نجی بینکوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ بیشتر بینکوں نے اپنے صارفین کو یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹ سے براہِ راست مختلف فلاحی اداروں کے فنڈز میں رقوم منتقل کر سکیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس عمل میں ’’نو یور کسٹمر‘‘ (KYC) قوانین کا اطلاق ہی نہیں کیا جاتا۔ اس طرح کوئی بھی شخص بڑے پیمانے پر فنڈز منتقل کر سکتا ہے اور بینک اس پر سوال نہیں اٹھاتے۔ اس خامی نے منی لانڈرنگ کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
ذرائع کے بقول کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے کہ آخر اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی ٹرانزیکشنز کی نگرانی کیوں نہیں کی گئی۔ ایف اے ٹی ایف کے دبائو کے باوجود اب تک این جی اوز کے فنڈز کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے کوئی سخت اور جامع میکنزم متعارف نہیں کرایا جا سکا۔ اسٹیٹ بینک کی موجودہ پالیسیوں نے غیر اعلانیہ طور پر منی لانڈرنگ کو آسان بنا دیا ہے۔ جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اب باقاعدہ اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ تاہم وفاقی ادارے کے اپنے ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کی کارروائیاں زیادہ تر نمائشی ثابت ہوئی ہیں۔ بڑے ادارے اور بااثر شخصیات ہمیشہ بچ نکلتی ہیں۔ جبکہ چھوٹی اور غیر معروف این جی اوز کیخلاف کارروائی کرکے انہیں نشانِ عبرت بنایا جاتا ہے۔ اگر اس بار بھی یہی سلسلہ دہرایا گیا تو نہ صرف حکومتی ساکھ متاثر ہوگی۔ بلکہ پاکستان کے مالیاتی نظام پر عالمی سطح پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کے عوام ہمیشہ سے خیرات دینے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک میں ہر سال اربوں روپے زکوٰۃ، صدقات اور خیرات و عطیات کی مد میں دیئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر یہ رقم عوامی فلاح کے بجائے منی لانڈرنگ کا ذریعہ بن جائے تو یہ نہ صرف عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والی بات ہے۔ بلکہ مستقبل میں خیرات و عطیات کے رجحان کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ معاملہ انتہائی خطرناک ہے۔ اگر بینکوں اور این جی اوز کے فنڈز کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں کا دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اس سنگین صورتحال کے حل کے لیے چند تجاویز دی گئی ہیں۔ ان کے مطابق رفاہی اداروں اور این جی اوز کی رجسٹریشن اور فنڈنگ کا مکمل آڈٹ کیا جائے اور بینکوں کو پابند بنایا جائے کہ ان خیراتی اداروں کے لیے کیے جانے والے ہر ٹرانزیکشن پر KYC اور اسکریننگ لازمی ہو۔ اسٹیٹ بینک کو ایک علیحدہ ’’چیرٹی فنڈز مانیٹرنگ سیل‘‘ قائم کرنا چاہیے۔ جو مسلسل نگرانی کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے اور حساس اداروں کو مشترکہ تحقیقات کے تحت بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ نہ کہ صرف چھوٹے اداروں کو نشانہ بنایا جائے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ معاملہ پاکستان کے مالیاتی نظام اور عوامی اعتماد دونوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

اگر وفاقی حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے محض اعلانات یا نمائشی کارروائیوں پر اکتفا کرنے کے بجائے ٹھوس اور شفاف اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر رفاہی و خیراتی ادارے، جو عوامی خدمت کے لیے ہوتے ہیں، منی لانڈرنگ اور کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن جائیں گے۔