عدالت نے کہا شریعت میں بالغ اور رضا مند لڑکی کا نکاح درست، مگر قانون میں کم عمری کی شادی جرم قرار دی گئی ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مدیحہ بی بی نامی کم عمر لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہوئے ایک اہم قانونی اور شرعی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شریعت کے مطابق بلوغت اور رضامندی کے بعد نکاح درست سمجھا جاتا ہے، تاہم اسلام آباد چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2025 کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادی جرم ہے۔
جسٹس محمد اعظم خان نے 24 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جس میں یہ نوٹ کیا گیا کہ مدیحہ بی بی نے بارہا عدالت اور کرائسز سینٹر میں اپنے بیانات میں شوہر کے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا اور والدین کے پاس واپس جانے سے انکار کیا۔
فیصلے میں واضح کیا گیا کہ نکاح نامے میں لڑکی کی عمر 18 سال درج کی گئی تھی، جبکہ نادرا ریکارڈ کے مطابق وہ اصل میں 15 سال کی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگرچہ شرعی نقطۂ نظر سے نکاح کو کالعدم نہیں کہا جا سکتا، لیکن قانونی طور پر یہ جرم شمار ہوتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سفارش کی کہ نادرا کے نظام کو اس طرح مربوط کیا جائے کہ نکاح کی رجسٹریشن سے قبل لازمی طور پر عمر کی تصدیق ہو، جبکہ نکاح رجسٹرارز کو پابند بنایا جائے کہ وہ 18 سال سے کم عمر افراد کی شادی نہ کرائیں۔
فیصلے میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 اور مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کا بھی حوالہ دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ شادی، نابالغی اور فوجداری قوانین میں مطابقت پیدا کی جائے اور عوام میں آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ کم عمری کی شادی کے نقصانات سے بچا جا سکے۔
عدالت نے ہدایت دی کہ فیصلے کی نقول لاء اینڈ جسٹس کمیشن، وزارت قانون، وزارت انسانی حقوق، وزارت داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی نادرا اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کی جائیں تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جا سکیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos