محمد اطہر فاروقی:
کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو جن تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ ان کی بیماری سے بھی بڑھ کر اذیت ناک ہوتے ہیں۔ اسپتالوں میں بیڈز و وینٹی لیٹر سمیت سہولیات کی کمی، عملے کے تلخ رویے، ادویات کی عدم فراہمی اور ٹیسٹنگ کیلئے فیسوں کے مطالبات وہ عوامل ہیں، جو مریض اور اس کے اہلخانہ کو شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتے ہیں۔
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کے نرم لہجے میں دو بول بھی مریض کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ لیکن کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو اکثر سخت اور تلخ جملے سننے کو ملتے ہیں۔ طبی عملے کے مطابق بعض اوقات مریض یا ان کے تیماردار غیر ضروری دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے اور بدتمیزی کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں معاملہ تلخ کلامی سے بڑھ کر ہاتھا پائی اور کبھی کبھار پولیس تک جا پہنچتا ہے۔
اگست 2025ء میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے تمام سرکاری اسپتالوں میں مجموعی طور پر صرف 6 ہزار 500 بستر اور 250 وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔ یہ تعداد شہر کی آبادی اور روزانہ آنے والے مریضوں کی ضرورت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مریضوں کو راہداریوں میں انتظار کرنا پڑتا ہے اور بعض مریض فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بستروں کی کمی سے جھگڑے اور بد نظمی بڑھتی ہے۔ جبکہ وقت پر علاج نہ ہونے سے مریضوں کی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
بلدیہ ٹاؤن کی رہائشی فاطمہ (فرضی نام) اپنے شوہر کے جگر کے آپریشن کیلئے سول اسپتال پہنچیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’اسپتال پہنچتے ہی سب سے پہلے پارکنگ کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ اسپتال کے احاطے میں پارکنگ نہیں تھی اور باہر نجی پارکنگ والے پیسے مانگ رہے تھے۔ کسی طرح اسپتال کے اندر داخل ہوئے تو وارڈ کے دروازے پر موجود گارڈ نے تلخ لہجے میں سوالات کی بھرمار کر دی کہ وارڈ میں کیوں جا رہی ہو؟ کس کا آپریشن ہے؟ یہ میل وارڈ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بڑی مشکل سے گارڈ کو جواب دیئے۔ جب وارڈ میں پہنچے تو پتا چلا کہ بستر موجود نہیں۔ پہلے ہی 12 سے 15 مریض آپریشن کے انتظار میں تھے۔
میل نرس نے صاف کہہ دیا کہ وارڈ میں بیڈ خالی نہیں۔ کہیں سے بیڈ تلاش کریں۔ جگہ ملے گی تو داخل کر لیں گے۔ میں اکیلی خاتون اپنے بیمار شوہر کے ساتھ کہاں بستر ڈھونڈتی؟ جب میں نے ڈاکٹر سے بات کرنا چاہی تو کائونٹر پر موجود میل نرس نے بھرے وارڈ میں مجھے سخت لہجے میں ڈانٹ دیا، کہ آپ سے کہہ چکا ہوں کہ یہاں جگہ نہیں۔ ایک بار بات سمجھ نہیں آتی۔ اس رویے سے انتہائی دکھ ہوا اور رونا آ گیا۔ اس سے بڑھ کر بے بسی یہ تھی کہ ڈاکٹر سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ مگر کسی نے آگے بڑھ کر میری بات سننا تک گوارا نہیں کی‘‘۔ یہ کہانی صرف ایک فاطمہ کی نہیں۔ روزانہ ہزاروں مریض اور ان کے اہلخانہ سرکاری اسپتالوں میں ایسے ہی تجربات سے گزرتے ہیں۔
کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال، جناح اسپتال میں لیاقت آباد کے رہائشی 40 سالہ محمد ادریس (فرضی نام) اپنے گھٹنے کے درد کے علاج کیلئے پہنچے۔ وہ بتاتے ہیں ’’مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ ہڈیوں کی او پی ڈی کہاں ہے اور پرچی کہاں سے بنے گی۔ دو افراد سے پوچھا تو غلط راستہ بتایا۔ رہنمائی کیلئے کوئی دستیاب نہیں تھا۔ آخرکار ایک گارڈ نے بتایا کہ آگے کائونٹر سے پرچی ملے گی۔ ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور ایم آر آئی لکھ دیا۔ جب کائونٹر پر گیا تو بے پناہ رش تھا۔ کوئی نظام، لائن، کچھ نہیں تھا۔ آدھے گھنٹے بعد نمبر آیا تو بتایا گیا کہ ایم آر آئی سات دن بعد ہوگا اور اس کیلئے 1500 روپے فیس جمع کرانا ہوگی۔
میں حیران ہوا کہ سرکاری اسپتال میں یہ فیس کیوں؟ جواب ملا کہ یہی چارجز ہیں۔ جب ڈاکٹر سے دوبارہ بات کی تو انہوں نے کہا کہ کسی نجی لیبارٹری سے ایم آر آئی کروا لیں، جہاں سے جلدی رپورٹ مل جائے گی۔ میں نے کہا کہ اگر مجھے نجی لیبارٹری ہی جانا ہوتا تو یہاں کیوں آتا؟‘‘ ادریس کے مطابق گھٹنے کے معمولی درد کیلئے وہ چار دن سے اسپتال کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ لیکن ایم آر آئی نہ ہونے کے باعث اب تک درد کی وجہ تشخیص نہیں ہوئی اور دوا تک نہیں ملی۔
کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں سہولتوں کی کمی کا یہ عالم ہے کہ ادویات کی دستیابی بھی یقینی نہیں۔ تیمارداروں کیلئے بیٹھنے تک کا انتظام نہیں۔ اکثر مریضوں کو راہداریوں یا کھلے آسمان تلے وقت گزارنا پڑتا ہے۔ رہنمائی کے نظام کے فقدان کی وجہ سے مریض اور تیماردار اسپتال کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ معمولی معمولی بات کیلئے کبھی او پی ڈی تو کبھی لیبارٹری کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں کو آسانیاں فراہم کرنا اور ان سے نرم لہجے میں بات کرنا ان کی صحت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق 10 سے 15 فیصد سے زائد مریضوں کی صحت پر مثبت اثر صرف ڈاکٹر اور عملے کے اچھے رویے کی وجہ سے آتا ہے۔ اسپتالوں میں تعینات کچھ ڈاکٹرز اور نرسز کا کہنا ہے کہ بعض اوقات مریض اور ان کے ساتھ آئے تیماردار غیر ضروری طور پر بدتمیزی کرتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اکثر تیماردار چاہتے ہیں کہ سب مریضوں کو چھوڑ کر صرف ان کے مریض کو دیکھا جائے۔ اگر ان سے نرمی سے بات کی جائے تب بھی ان کا لہجہ عجیب ہوتا ہے۔ یہی رویہ لڑائی جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اصل مسئلہ اسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی، غیر منظم سسٹم اور عملے کی کمی ہے۔ جب مریض کو بروقت علاج نہیں ملتا یا بستر دستیاب نہیں ہوتا تو اس کے اہلخانہ کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ دوسری طرف عملہ تھکن اور دباؤ کے باعث سخت لہجہ اختیار کرتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ تلخ کلامی اور جھگڑوں تک جا پہنچتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت خصوصا کراچی کے اسپتالوں میں سہولتوں کا معیار بہتر کرے۔ کیونکہ بلوچستان اور سندھ سے بھی مریض یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos