امت رپورٹ:
غزہ میں جنگ کے خاتمے سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کے ’’امن منصوبے‘‘ کا بِیج تین ہفتے قبل بویا گیا تھا، جب اسرائیل نے حماس کے رہنمائوں کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کے طور پر قطر پر بمباری کی۔ اس حملے پر برہم ٹرمپ کے مشیر اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر نے سب سے پہلے غزہ کے بحران کو جلد ختم کرنے کے لئے اس واقعہ کو ایک موقع کے طور پر دیکھا ۔ یہ انکشاف وائٹ ہائوس سے قریب رہنے والے باخبر امریکی صحافی بارک ریوڈ نے کیا ہے۔
بارک ریوڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے وائٹ ہائوس کو تشویش تھی کہ نتن یاہو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے منصوبے کو مسترد کرنے جارہا ہے۔ اس اطلاع پر ٹرمپ نے نتن یاہو کو ایک سخت کال کی اور اسے کہا ’’اگر تم نے منصوبے کو چھوڑ دیا تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے؟ ٹرمپ نے ہفتے کے آخر میں نتن یاہو کے ساتھ فون پر پانچ بار بات کی اور کہا وہ اس منصوبے کے لئے واضح ’’ہاں‘‘ چاہتے ہیں۔
ادھر مشرق وسطیٰ کے ماہر سوئس تجزیہ کار جیوانی اسٹونوو نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ’’امن منصوبے‘‘ کے ابتدائی مسودے میں ٹرمپ نے نتن یاہو کے اصرار پر کچھ ترامیم کیں، تاہم نتن یاہو کے حکومتی اتحادی متعصب دائیں بازو کی تنظیمیں اس امن منصوبے میں مزید سخت شرائط شامل کرانا چاہتی تھیں، جسے ٹرمپ نے مسترد کردیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ سخت ’’امن منصوبے‘‘ میں اگر دائیں بازو کی صہیونی تنظیموں کی مزید شرائط بھی شامل کرلی جاتیں تو یہ ’’امن منصوبہ‘‘ سو فیصد ناقابل قبول ہوجاتا اور یہی نتن یاہو اور اس کی دائیں بازو کی تنظیمیں چاہتی تھیں۔
ان کا خیال تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل غزہ کو مکمل طور پر ملیا میٹ کرنے کی پوزیشن میں ہے تو جنگ کے خاتمے سے متعلق امن منصوبہ کسی طور پر منظور نہیں ہونا چاہئے۔ جیوانی اسٹونوو کے بقول ٹرمپ نے نتن یاہو سے کہا کہ وہ اسرائیل کی سلامتی کے معاملات پر سمجھوتہ کرنے کے لئے نہیں کہیں گے، لیکن اس کا اطلاق اس وقت نہیں ہوتا، جب واقعی ایسی کوئی صورتحال درپیش ہو۔ ٹرمپ نے نتن یاہو کو یقین دلایا کہ ’’اگر تم اس منصوبے کو قبول کرتے ہو اور حماس اس منصوبے کو مسترد کردیتی ہے تو پھر ان سے لڑنے کے لئے میں تمہاری حمایت کروں گا۔‘‘
امن منصوبے کے مسودے کی تیاری کے لئے پس پردہ کیا کچھ ہوتا رہا، اس کی تفصیلات بتدریج سامنے آتی رہیں گی۔ تاہم جو ’’امن منصوبہ‘‘ سامنے آچکا ہے، اس پر کڑی تنقید ہورہی ہے۔ نیویارک سٹی میں جسٹ سیکورٹی کے ایگزیکٹو ایڈیٹر عادل حق نے کہا ہے کہ اس منصوبے سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کرنے کے باوجود عرب حکام نے واضح کیا ہے کہ ان کے خیال میں معاہدے پر ابھی بات چیت جاری ہے اور تفصیلات طے نہیں ہوئیں۔ جیوانی اسٹونوو نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے ایک امریکی اہلکار کا حوالہ دے کر کہا کہ منصوبے کے چند نکات پر بات چیت ہوسکتی ہے، لیکن ٹرمپ پورے منصوبے پر دوبارہ بات چیت کا ارادہ نہیں رکھتے۔
لاس اینجلس کے ایک ادارے میں اسرائیلی امور کے پروفیسر ڈوو ویکس مین نے منصوبے کے نکات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا سب سے پیچیدہ مسئلہ غزہ سے اسرائیلی فورسز کے انخلا اور فلسطینی خود مختاری سے متعلق ہے۔ منصوبے میں حتمی طور پر اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے جو شرائط رکھی گئی ہیں، ان سے یہ مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔ اس سارے منصوبے کے دونکات کسی حد تک مثبت ہیں۔
اگر حماس اس منصوبے کو قبول کرتی ہے، لیکن اس حوالے سے ایک بڑا ’’اگر ‘‘ موجود ہے تو اس کے نتیجے میں جنگ بندی ہوگی۔ حماس تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کردے گی۔ اس کے جواب میں ڈھائی سو کے قریب سزائے موت پانے والے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی اور اس کے ساتھ ہی سترہ سو وہ فلسطینی جو سات اکتوبر دوہزار تئیس کے بعد گرفتار ہوئے تھے، وہ رہا ہوجائیں گے۔ جبکہ اسرائیلی بمباری رک جائے گی اور غزہ میں زیادہ سے زیادہ انسانی امداد پہنچانا ممکن ہوجائے گا۔ اس سے غزہ کے لوگوں کی مسلسل نسل کشی کا اسرائیلی منصوبہ روکنے میں مدد ملے گی۔
اسی طرح جنگ بندی کے نتیجے میں ٹرمپ کا جو پہلا منصوبہ تھا کہ غزہ کے باسیوں کو کسی عرب ملک بھیج دیا جائے۔ یہ بھی نہیں ہوپائے گا۔ دوسری جانب جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ اصل پیچیدہ مسئلہ غزہ سے اسرائیلی فورسز کے انخلا اور فلسطینی خود مختاری کے حوالے سے ہے۔ لیکن یہ انخلا بہت سی شرائط کے ساتھ ہے، جو شاید کبھی پوری نہ ہوسکیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ غزہ کے اندر بفرزون سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا اس وقت تک نہیں ہونا چاہئے، جب تک کہ اسرائیل کو کوئی سیکیورٹی خطرہ نہ ہو، جس کا تعین خود اسرائیل کرے گا۔
دوسرے لفظوں میں یہ منصوبہ بنیادی طور پر اسرائیل کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ اسے غزہ سے اپنی فورسز کو کب نکالنا ہے۔ اگر وہ پچاس سال تک بھی یہ نہ کہے کہ اس کی سیکورٹی کو کوئی خطرہ نہیں رہا تو تب تک غزہ کے بفرزون سے اسرائیلی فورسز کا انخلا نہیں ہوپائے گا۔ کم از کم مستقبل قریب میں اسرائیلی فورسز غزہ کے اندر سیکورٹی کے نام پر موجود رہیں گی اور غزہ نہیں چھوڑیں گی۔ اس کے نتیجے میں غزہ کے اندر طویل مدتی اسرائیلی فورسز کے قبضے کو سیکیورٹی کی بنیاد پر جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک فلسطینی خود مختاری کی بات ہے تو یہ منصوبہ غزہ میں ایک اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی تک حتمی ریاست کے امکان کو پیش کرتا ہے۔ لیکن یہ بہت دور کے امکانات ہیں، جو ممکن ہے کہ نہ ہوسکے۔ کیونکہ اس منصوبے پر مکمل امن درآمد کا امکان نہیں۔ اس دوران ، غزہ کی نگرانی ٹرمپ اور ٹونی بلیئر کی سربراہی میں ’’بورڈ آف پیس‘‘ کرے گا۔ ایک غیر منتخب ’’ٹیکنوکریٹ، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی‘‘ روزانہ کی بنیاد پر غزہ کا انتظام دیکھے گی۔
بنیادی طور پر اس کا مطلب ہے کہ غزہ مستقبل قریب میں غیر ملکی حکمرانی کے تحت رہے گا۔ آخر میں جیوانی اسٹونوو کا کہنا تھا کہ ’’ان شدید بدگمانیوں کے باوجود میں اب بھی اس منصوبے کی حمایت کرتا ہوں۔ کیونکہ ہر وہ چیز جو غزہ میں جاری قتل و غارت کو روکے اور وہاں کے یرغمالیوں کو آزاد کرائے ، اس کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
غزہ سے متعلق اس ڈویلپمنٹ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایک اور اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اسرائیل کے حملے کے بعد ٹرمپ نے قطر کو ایک غیر معمولی سیکورٹی گارنٹی دے دی ہے۔ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے اقدام کے ایک حصے کے طور پر اور دوحہ میں اسرائیلی حملے کے بعد قطر کو یقین دہانی کے طور پر، صدر ٹرمپ نے پیر کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں، جو ڈرامائی طور پر قطر کے ساتھ امریکی وابستگی کو ’’آرٹیکل فائیو‘‘ جیسی سیکورٹی گارنٹی دیتا ہے۔ یہ امریکہ اور ایک عرب ملک کے مابین ایک غیر معمولی سیکیورٹی معاہدہ ہے۔
ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ ریاست قطر کی سرزمین، خود مختاری یا اہم انفراسٹرکچر پر کسی بھی مسلح حملے کو امریکہ کے امن اور سلامتی کے لئے خطرہ سمجھے گا۔ اس طرح کے حملے کی صورت میں امریکہ، قطر کی ریاست کے مفادات کے دفاع اور امن و استحکام کی بحالی کے لئے سفارتی، اقتصادی اور اگر ضروری ہو تو فوجی مدد سمیت تمام قانونی اور مناسب اقدامات اٹھائے گا۔‘‘ واضح رہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین ہونے والے تاریخی معاہدے کے بعد یہ بات ہورہی تھی کہ قطر بھی پاکستان کے ساتھ اسی نوعیت کا اسٹریٹجک معاہدہ کرسکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اس میں شاید پہل کردی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos