عمران خان :
کراچی سے گرفتار انسانی اسمگلنگ کے بڑے نیٹ ورک کا مرکزی ملزم محمد علی کراچی سے کوئٹہ اور عراق تک مکروہ دھندے سے گزشتہ کئی برسوں سے منسلک تھا۔ ملزم محمد علی نے انکشاف کیا ہے کہ کے اس نیٹ ورک کے ایجنٹ لاتعداد شہریوں کو غیر قانونی طریقے سے عراق تک پہنچا چکے ہیں۔ جہاں ان سے بھیک منگوانے کے علاوہ دیگر دھندے بھی کروائے جاتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سنگین انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ایک جانب ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل (AHTC) کراچی نے حالیہ کارروائی کے دوران ایک انسانی اسمگلر محمد علی کو گرفتار کیا ہے، جو عراق بھیجنے کے غیر قانونی نیٹ ورک میں سرگرم اور ایف آئی آر نمبر 88/2025 میں مطلوب تھا، تو دوسری طرف امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی اسمگلنگ (TIP) رپورٹ 2025ء نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے، جو انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کیلئے کم از کم معیارات پر پورا نہیں اترتے۔
ان دونوں واقعات نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ آیا پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف حکومتی اقدامات واقعی موثر ہیں یا محض علامتی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔ صرف پاکستانی شہری ہی نہیں، بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے آنے والے تارکین وطن بھی بڑی تعداد میں انسانی اسمگلرز کا نشانہ بنتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے غیر قانونی نیٹ ورکس کے ذریعے افغان، ایرانی اور دیگر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو پاکستان میں استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین پر گھریلو تشدد، زبردستی کی شادیوں اور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات انہیں اسمگلنگ نیٹ ورکس کا آسان ہدف بناتے ہیں۔ اسی طرح پناہ گزین افراد بھی سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ ان میں افغان باشندے، بنگالی، بہاری اور روہنگیائی افراد شامل ہیں جن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہوتیں۔ ریاستی تحفظ سے محرومی انہیں اسمگلرز کے ہاتھوں استحصال کیلئے چھوڑ دیتی ہے۔
ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چند برسوں میں 3 ہزار 500 سے زائد ملزمان کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔ جن میں سے تقریباً 2 ہزار کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے باوجود ہزاروں ملزمان مفرور ہیں اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ محمد علی کی گرفتاری بلاشبہ ایک اہم کامیابی ہے۔ مگر یہ بھی واضح کرتی ہے کہ بڑے پیمانے پر نیٹ ورک ابھی بھی موجود اور سرگرم ہیں۔ ریڈ بک میں سینکڑوں مطلوب اسمگلرز کے نام شامل کیے جا چکے ہیں۔ چھاپے اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ مگر اکثر کیسز منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔ ثبوت اکٹھا کرنے کی کمزوریاں، عدالتی تاخیر اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی کمی انسانی اسمگلنگ کے خلاف مہم کو محدود کر رہی ہے۔
پاکستان نے انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کیلئے ’’Prevention of Smuggling of Migrants Act 2018‘‘ اور ’’Prevention of Trafficking in Persons Act 2018‘‘ جیسے قوانین متعارف کرائے۔ ان قوانین میں سخت سزائیں اور بھاری جرمانے شامل ہیں۔ حالیہ برسوں میں سینیٹ نے ان میں مزید ترامیم کی سفارشات بھی منظور کیں۔ جن کے تحت سزا کی مدت اور جرمانے بڑھانے کی تجویز دی گئی۔ تاہم عملی سطح پر صورت حال مختلف ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق جب تک ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد نہیں ہوگا اور عدالتی نظام کو تیز نہیں بنایا جائے گا، محض قانون سازی انسانی اسمگلنگ کے پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
متاثرین کی حالت سب سے زیادہ افسوسناک ہے۔ اکثر نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آتے ہیں اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کچھ لوگ عراق اور لیبیا کے صحرائوں میں پیاس سے مر جاتے ہیں۔ کچھ سمندری راستوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ جبکہ کئی، مہینوں تک غیر انسانی حالات میں قید رہتے ہیں۔ حکومت اور امدادی ادارے متاثرین کو وقتی سہولتیں تو فراہم کرتے ہیں، جیسے پناہ گاہیں اور ابتدائی قانونی مشورہ۔ لیکن طویل المدتی بحالی، نفسیاتی معاونت اور روزگار کے مواقع دینے کے حوالے سے بڑے خلا موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے متاثرین دوبارہ انہی نیٹ ورکس کا شکار بن جاتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ مذہبی و نسلی اقلیتیں جبری مشقت اور استحصال کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ’’ریاستی شناخت سے محروم افراد‘‘ کی کوئی واضح قانونی تعریف موجود نہ ہونا بھی ایک بڑی خامی ہے، جس کے باعث لاکھوں لوگ شناختی دستاویزات سے محروم ہیں اور اسمگلروں کیلئے نرم ہدف بن جاتے ہیں۔ یہ حقیقت اب مزید چھپائی نہیں جا سکتی کہ انسانی اسمگلنگ صرف ایک قانونی جرم نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی و معاشی بحران ہے۔ اگر پاکستان اس جنگ کو جیتنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے بین الاقوامی تعاون کو موثر بنانا ہوگا۔
عراق، ایران اور ترکیہ جیسے ممالک کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ اور مشترکہ آپریشنز انسانی اسمگلنگ نیٹ ورکس کو توڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ساتھ ہی قوانین پر فوری اور سخت عملدرآمد ناگزیر ہے تاکہ سزا کا خوف اسمگلرز کیلئے حقیقی ہو۔ متاثرین کی بحالی اور انضمام کیلئے بھی طویل مدتی پروگراموں کی اشد ضرورت ہے۔ جن میں نفسیاتی معاونت، قانونی امداد اور روزگار کی تربیت شامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کو جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل نگرانی کے نظام اور مقامی پولیس کے ساتھ بہتر کوآرڈینیشن فراہم کرنی ہوگی تاکہ نیٹ ورکس کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔
ذرائع کے بقول کراچی میں ایف آئی اے کی جانب سے محمد علی کی گرفتاری ایک اہم پیش رفت ضرور ہے۔ لیکن امریکی رپورٹ کے انکشافات یہ واضح کرتے ہیں کہ مسئلہ اپنی جڑوں کے ساتھ اب بھی برقرار ہے۔ پاکستان کے نوجوان، خواتین، اقلیتیں اور پناہ گزین سب سے زیادہ متاثر ہیں اور جب تک قانون، ادارے اور سماج مل کر ایک جامع حکمت عملی اختیار نہیں کریں گے۔ انسانی اسمگلنگ کا یہ مذموم دھندا نئی شکلوں میں پھلتا پھولتا رہے گا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos