فائل فوٹو
فائل فوٹو

صدر کا ججز ٹرانسفر نوٹیفکیشن بےاثر، قانوناً کوئی حیثیت نہیں رکھتا: سپریم کورٹ ججز کا اختلافی نوٹ

اسلام ٓٓباد: ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے 2 ججز کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے، جس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر صرف عارضی ہوسکتا ہے، مستقل نہیں، صدر مملکت نے بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے فیصلہ کیا، نوٹیفکیشن بے اثر اور قانوناً کوئی حیثیت نہ رکھنے والا ہے۔

جمعے کو ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد کا اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا ہے، جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے۔

جسٹس نعیم اخترافغان نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا تبادلہ صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں جب کہ صدر پاکستان نے ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے جاری کیا، جو غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور غیر ضروری جلدی میں کیا گیا عمل تھا۔

اختلافی نوٹ کے مطابق صدر کا یہ نوٹیفکیشن بے اثر ہے اور قانوناً اس کی کوئی حیثیت نہیں، ججز کا تبادلہ عدالتی آزادی اور تقرری کے آئینی طریقہ کار کے منافی ہے۔

اختلافی نوٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے تھے۔ خط میں دباؤ، بلیک میلنگ، غیر قانونی نگرانی اور سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینیئر کرنے کی کوششوں کا ذکر تھا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی ججز نے اپنے خط میں اٹھایا تھا اور چیف جسٹس سے عدالتی کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اختلافی نوٹ کے مطابق ججز کے اسی خط کے بعد حکومت نے جلد بازی میں ان کی مستقل منتقلی کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی کو متاثر کرنا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ 25 ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز سینیارٹی اور تبادلے کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے دائر درخواستیں نمٹاتے ہوئے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ صدر کو آرٹیکل 200 کے تحت ججز کی منتقلی کا اختیار حاصل ہے، مگر جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ججز کے ٹرانسفر کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، ٹرانسفر کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے اور ججز کے ٹرانسفر سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ججز کے ٹرانسفر میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی، ججز کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق ہوا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 ٹرانسفر پر قدغن نہیں لگاتا، (ٹرانسفر میں) صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ججز کی سینیارٹی کا تعین صدر پاکستان کریں گے، ٹرانسفر مستقل یا عارضی ہے، اس کا فیصلہ صدر سروس ریکارڈ دیکھ کر کریں گے۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ معاملہ سینیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے، اور ہائی کورٹ ججز کے ٹرانسفر سے متعلق درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 19 جون کو 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

عدالت نے 3، 2 کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں۔