میگزین رپورٹ :
حماس کی جانب سے امن معاہدہ کے ایک حصے پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد اسرائیلی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو فوری بمباری روکنے کی ہدایت پر نیتن یاہو اور اسکے متشدد وزرا آگ بگولہ ہیں۔
تازہ پیش رفت کے حوالے سے امریکی نیوز آئوٹ لیٹ ایکسِیوس (Axios) نے ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ نیتن یاہو کو امید تھی کہ اگر حماس ان نکات پر مشروط امادگی ظاہر کرے گی تو ٹرمپ مسترد کردیںگے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حماس کی محض چند نکات پر اتفاق کی بنیاد پر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو فوری بمباری روکنے پر بیان پر نیتن یاہو حیران رہ گیا۔
عبرانی میڈیا رپورٹس میں حماس کی ہاں اور ٹرمپ کے احکامات پر حکومت، انتظامیہ اور افواج میں واضح تقسیم رپورٹ کی گئی ہے۔ اسرائیلی فوجی قیادت ٹرمپ کے اعلان کے بعد غزہ سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہوچکی ہے۔ تاہم نیتن یاہو کی حکومت گرنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اس خطرے کی نوعیت اس قدر زیادہ ہے کہ اسے اپنی مخلوط حکومت کا توازن برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
نیتن یاہو حکومت کا دارومدار بنیادی طور پر اس کے انتہائی دائیں بازو اور مذہبی صہیونی اتحادیوں پر ہے، جن میں بیزالل سموٹرچ اور ایتمار بین گویر جیسے سخت گیر وزرا شامل ہیں۔ یہ وہ فریق ہیں جو معاہدے کے بنیادی نکات پر حکومت کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں بہت کم اکثریت پر قائم ہے (61 نشستوں کی معمولی برتری)۔ اگر معاہدہ منظور ہوتا ہے، تو نیتن یاہو کے انتہا پسند اتحادی ممکنہ طور پر حکومت چھوڑ سکتے ہیں۔
اگر ان میں سے کوئی بھی اہم اتحادی جماعت (جیسے ریلیجیئس زائنیزم یا جیوش پاور) اس معاہدے پر عملدرآمد کے خلاف ووٹ دیتی ہے تو نیتن یاہو اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دے گا اور حکومت گر جائے گی، جس کے نتیجے میں نئے انتخابات منعقد ہوں گے۔ اندرونی طور پر نیتن یاہو سخت دباؤ میں ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے اتحادی (جیسے سموٹریچ اور بین گویر) اس منصوبے کے خلاف ہیں اور اس کی منظوری کی صورت میں حکومت گرانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ لہٰذا، نیتن یاہو کا سیاسی پلڑا سیاسی بقا کے خطرے کی وجہ سے بہت کمزور ہے۔
صہیونی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور وزیر قومی سلامتی اتمار بین گویر جیسے دائیں بازو کے وزرا نے ٹرمپ پلان اور نیتن یاہو کی آمادگی پر شدید مخالفت کا اعلان کردیا ہے۔ ان دونوں نے اس معاہدے کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ سموٹریچ نے اس منصوبے کوسفارتی ناکامی اور سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا ’’ایسا لگتا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ یہ معاہدہ آنسوؤں پر ختم ہو گا اور ان کے بچوں کو غزہ میں دوبارہ لڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ غزہ پر قبضہ ناگریز ہے۔ اس کے لئے مزاکرات کی جگہ حماس کے مکمل خاتمے کا بندوبست کرنا چاہیے۔
اگر نیتن یاہو نے اس معاہدے کو قبول کیا تو ہم حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔‘‘ اسی طرح اتمار بین گویر نے اس منصوبے کو خطرناک اور خامیوں سے بھرپور قرار دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو حماس کو مکمل طور پر شکست دیے بغیر جنگ ختم کرنے کا کوئی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ بین گویر نے نیتن یاہو کی طرف سے قطر سے معافی مانگنے پر بھی شدید غصے کا اظہار کیا اور قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا۔
عبرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق امن معاہدے پر پیش رفت کے بعد سے اسرائیل بھر میں اس کی کامیابی کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ یہ منصوبہ یرغمالیوں کو واپس لانے کا آخری اور بہترین موقع ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، اخلاقی طور پر اس معاہدے کو قبول کیا جانا چاہیئے۔ کئی مبصرین نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی فوری واپسی چاہتی ہے۔
عبرانی میڈیا میں سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ اگر نیتن یاہو یہ معاہدہ قبول کرتا ہے تو اس کی مخلوط حکومت ٹوٹ جائے گی۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ اس پر اسرائیل اپوزیشن رہنما خوفزدہ ہیں کہ نیتن یاہو معاہدے کو سبوتاژ کر سکتا ہے، تاکہ اپنی حکومت بچا سکے۔ جبکہ دائیں بازو کے میڈیا آؤٹ لیٹس نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہ منصوبہ حماس کو مکمل طور پر تباہ کیے بغیر اسے ایک سیاسی وجود کے طور پر بچنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح امریکہ اور مغربی ممالک میں موجود امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (AIPAC) اور دیگر صہیونی لابی نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے معاہدے پر آمادگی پر خوش نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق بہت سے اسرائیلی فوجی تجزیہ کاروں نے منصوبے میں حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس شرط پر عملدرآمد کرانا عملی طور پر ناممکن ہوگا۔ صہیونی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ناکام ہونے کا امکان 70 سے 80 فیصد ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکومت کی طرح حماس کو بھی اس معاہدہ قبول کرنے پر اپنی بقا کے حوالے سے سخت چینلجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ حماس نے معاہدے کو آگے بڑھانے کیلئے مصر، قطر اور ترکیہ کی حکومت کی جانب سے بعض پہلو پر گارنٹی حاصل کی ہیں۔ حماس کا ایک دھڑا ترمیم چاہتا ہے، لیکن ہتھیار ڈالنے کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔ حماس اس وقت تک مزاحمت کے حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں جب تک اسرائیلی قبضہ ختم نہیں ہو جاتا۔
حماس کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل کے منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا شدید خطرہ ہے۔ منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی واضح وعدہ نہیں ہے، جسے طویل مدتی امن کی کلیدی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے حماس رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہم نے مصر کے پیش کردہ وژن پر اتفاق کیا۔ا نہوں نے کہا کہ مصر نے گارنٹی دی ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو ہتھیار دیں گے اور جو بھی غزہ پر حکومت کرے گا اس کے پاس ہتھیار ہوں گے۔ ہم عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ کی جنگ کو روکنے، قیدیوں کے تبادلے اور امداد تک فوری رسائی کی اجازت دینے کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ امریکہ کو فلسطینی عوام کے مستقبل کے بارے میں مثبت نظریہ رکھنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس ایک قومی آزادی کی تحریک ہے اور اس منصوبے میں دہشت گردی کی تعریف اس پر لاگو نہیں کی جا سکتی۔ امن فوج سے متعلق تمام تفصیلات کو سمجھنے اور وضاحت کی ضرورت ہے۔ پہلی ترجیح جنگ اور قتل عام کو روکنا ہے اور اس نقطہ نظر سے ہم نے اس منصوبے کو مثبت انداز میں نمٹا ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں قیدیوں اور لاشوں کو 72 گھنٹے کے اندر حوالے کرنا غیر حقیقی ہے۔ ہم تحریک اور ہتھیاروں سے متعلق تمام معاملات پر مذاکرات کریں گے۔
واضح رہے کہ حماس نے ماضی میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جاتی ہے تو وہ ہتھیار ڈال کر ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos