فائل فوٹو
فائل فوٹو

ٹرمپ امن منصوبے پر عمران نے چپ کا روزہ کیوں رکھا ؟

امت رپورٹ:
ایران پر اسرائیلی حملہ ہو یا غزہ میں جنگ بندی سے متعلق ٹرمپ کا امن منصوبہ ’’امت مسلمہ کا لیڈر‘‘ قرار دیئے جانے والے عمران خان نے ان تمام اہم ترین ایشوز پر پراسرار خاموشی اختیار کئے رکھی۔ قریباً ایک ہفتہ قبل جب ٹرمپ کا متنازعہ امن منصوبہ منظرعام پر آیا تھا تو پاکستان کی تقریباً تمام قابل ذکر اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں نے اس کے خلاف اپنا نقطہ نظر واضح الفاظ میں پیش کیا، لیکن خود کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی قرار دینے والی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس سے لاتعلق رہے۔

اس امن منصوبے کے سامنے آنے کے تین روز بعد عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر جب پہلی پوسٹ کی گئی تو بعض نادانوں کو امید تھی کہ عمران خان امن منصوبے کے بخئے اکھیڑ کر رکھ دیں گے، لیکن ’’امت مسلمہ کے لیڈر‘‘ نے اس بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ بلکہ طویل ترین پوسٹ میں کرپشن کے ایک اور توشہ خانہ کیس سمیت اپنے دیگر کیسوں کا رونا روتے رہے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ اس قدر اہم ایشو پر بانی پی ٹی آئی نے چپ کا روزہ رکھا۔ اس سے پہلے ایران پر اسرائیلی حملے کے معاملے پر بھی عمران خان نے اپنے ہونٹ سی لئے تھے اور آج تک اس پر لب کشائی نہیں کی۔ عمران خان کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے والے ایک سے زائد ذرائع جو بقول شخصے بانی پی ٹی آئی کی رگ رگ سے واقف ہیں، اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس سارے معاملے سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ جیل کی قید نے عمران خان کی ذہنی صحت کو متاثر نہیں کیا ہے اور کسی بھی سودے میں سود و زیاں کا انہیں پورا احساس ہے۔

قصہ مختصر ان کا شاطر دماغ پوری طرح کام کررہا ہے۔ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر خاموش رہنے کی وجہ بالکل سادہ تھی اور اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ عمران خان ایران کی حمایت میں بیان دے کر اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور خاص طور پر اپنے سابق سسرالی گولڈ اسمتھ خاندان کو، جو اس وقت ان کی رہائی کے لیے امریکہ میں موجود طاقت ور یہودی لابی کو استعمال کررہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پر یہ دباؤ تاحال موثر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔

تاہم فلسطین سے متعلق ٹرمپ کے امن منصوبے کا معاملہ عمران خان کے لئے ایران والے ایشو سے زیادہ پیچیدہ نکلا۔ یہاں اگر وہ اس معاہدے کے خلاف بیان دیتے تو نا صرف امریکہ اور اسرائیل بلکہ سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کی ناراضی بھی مول لینا پڑتی جو اس معاہدے کے بنیادی کردار ہیں۔ چونکہ امن منصوبے میں موجودہ پاکستانی حکومت نے بھی رول ادا کیا ہے، لہٰذا عمران خان کا دل تو بہت چاہ رہا ہوگا کہ وہ اس پر شہباز حکومت کے اسی طرح لتّے لیتے، جس طرح باقی اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں نے لئے۔ لیکن حالات سے مجبور انقلابی نے شاید دل میں ہی شہباز حکومت کو برا بھلا کہنے پر اکتفا کیا۔ جن دنوں عمران خان پاکستانی سیاست میں بتدریج ابھر رہے تھے تو تب ان کو تقریریں اور میڈیا ٹاک کیلئے پوائنٹس لکھ کر دینے والے ایک ذریعے کے بقول اصولوں کے مقابلے میں ناپ طول کا اعشاریہ نظام شروع سے عمران خان کی سرشت میں شامل ہے۔ وہ اس معاملے پر بڑے کیلکولیٹڈ ہیں۔

ذریعے نے بتایا کہ ایک بار بھارت کے دورے کے موقع پر عمران خان نے انہیں تاکید کی تھی کہ وہاں مختلف ایونٹس پر خطاب کیلئے ایسی تقریر لکھ کر نہ دے دینا جس میں انڈیا کی پاکستان سے دشمنی کو زیادہ فوکس کیا گیا ہو، کیوں کہ بھارت میں بھی ان کی بڑی فین فالونگ ہے جو متاثر ہوسکتی ہے۔

ٹرمپ امن منصوبے کو لے کر سب سے زیادہ قابل رحم حالت ان کلٹ پیروکاروں کی رہی، جنہیں ہمیشہ کی طرح اس بات کا ہوش ہی نہیں کہ ایک بار پھر ان کے دیوتا نے ان سے ہاتھ کردیا ہے۔ ٹرمپ امن منصوبے پر دیوتا خاموش رہا اور پجاریوں نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کئے رکھا۔ اس سے قبل پاک سعودی تاریخی معاہدے پر بھی پجاریوں نے منفی سوشل میڈیا کمپین چلانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم دیوتا نے تب بروقت جیل سے اپنے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دے دیا تھا۔ اور کلٹ پیرو کاروں نے اسے مرشد کے گیان سے تعبیر کیا تھا۔

ذریعے کے مطابق پاک سعودی اسٹریٹیجک معاہدے کی تائید چیئرمین پی ٹی آئی کی اس لئے مجبوری تھی کہ وہ موجودہ صورت حال میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں جو پہلے ہی ان کے دور حکومت میں سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے۔ پھر یہ کہ اگر مستقبل میں کسی ڈیل کے تحت دیوتا بیرون ملک جانے کی ڈیل کرلیتا ہے تو اس کے لئے سعودی عرب ان کی ممکنہ پناہ گاہ ہوسکتی ہے۔ ان باریکیوں سے دیوتا کے کلٹ پیروکار نابلد ہیں، چنانچہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ ہوتے ہی انہوں نے حسب روایت منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا۔ لیکن دیوتا نے ان کی خواہشات کے برعکس معاہدے کی تائید کردی تو منفی کمپین جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔

بعد ازاں انتشار پسند پجاریوں کے ہاتھ ایک نیا ایشو فلسطین سے متعلق ٹرمپ کے امن معاہدے کے طور پر آیا، چنانچہ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک نان اسٹاپ کمپین چلائی گئی۔ لیکن بے ادبی کے ڈر سے وہ اس بار بھی مرشد سے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکے کہ ایران اسرائیل جنگ کے ایشو کی طرح اس معاملے پر بھی اس نے لب کیوں سی لئے ہیں۔ اس سوشل میڈیا کمپین میں زیادہ تر اوورسیز پجاری شامل ہیں جو امریکہ یورپ کی ٹھنڈی فضاؤں میں لگژری لائف سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فلسطینیوں کو مزید جہاد اور جانیں قربان کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ خود انہوں نے کبھی ایک پانی بوتل کی بھی شاید ان بے آسرا فلسطینیوں کو نہیں پہنچائی ہوگی۔

اگر بدترین اسرائیلی مظالم کا شکار یہ فلسطینی اپیل کردیتے کہ ان کی مدد کے لیے زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے تو دودھ پینے والے یہ تمام مجنوں یقینا غائب ہو جاتے۔ قصہ مختصر ٹرمپ کا متنازعہ امن منصوبہ تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا حق صرف فلسطینیوں کو تھا، تماشائیوں کو نہیں۔ اور اب حماس بعض شرائط کے ساتھ کسی حد تک اس امن منصوبے کو تسلیم کر چکی ہے۔ جس کے بعد منصوبے پر عملدرآمد کی تکنیکی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ حماس کی اہم شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب تک اسرائیلی فورسز غزہ سے مکمل انخلا نہیں کرتیں، وہ غیر مسلح نہیں ہو گی۔ دیکھنا ہے کہ امن منصوبے پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔ اور یہ کامیاب ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے صورت حال واضح ہو جائے گی۔

کلٹ پیروکاروں کے برعکس پی ٹی آئی قیادت پارٹی چیئرمین کی مجبوریوں سے آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ امن منصوبے پر پی ٹی آئی کی جانب سے ایک ہومیوپیتھی بیان ضرور جاری کیا گیا تھا۔ اس محتاط بیا ن میں مذمت کے بجائے محض تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پہلے قاف لیگ، پھر نون لیگ اور اب پی ٹی آئی کی گود میں بیٹھنے والے شیخ وقاص اکرم کی جانب سے بطور پارٹی انفارمیشن سیکریٹری جاری موقف میں کہا گیا ’’پاکستان تحریک انصاف، جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اس کے عوام کی حقیقی آواز ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حال ہی میں اعلان کردہ غزہ کے بارے میں امن معاہدے پر گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے، جو فلسطینی عوام کی آزاد مرضی اور رضامندی کو یقینی بنائے بغیر فلسطین کے مستقبل کا تعین کرنا چاہتا ہے۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور مقبوضہ شامی گولان ہائٹس کو اسرائیلی علاقہ تسلیم کرنا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ اور یہ ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے عالمی کوششوں کو کمزور کرتا ہے۔‘‘