امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن شاہراہِ فیصل پر عظیم الشان و تاریخی یکجہتی غزہ مارچ کے لاکھوں شرکا سے خطاب کر رہے ہیں
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن شاہراہِ فیصل پر عظیم الشان و تاریخی یکجہتی غزہ مارچ کے لاکھوں شرکا سے خطاب کر رہے ہیں

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا تو حکمرانوں کا نان نفقہ بند کردینگے، حافظ نعیم

کراچی: جماعت اسلامی کے تحت شاہراہ فیصل پر عظیم الشان غزہ ملین مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت عوام کا سمندر امڈ آیا۔

جماعت اسلامی کے تحت امریکی پشت پناہی سے اسرائیلی افواج کی غزہ پر مسلسل بمباری، مظلوم و نہتے فلسطینی مسلمانوں، خواتین و بچوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کی نسل کشی، صمود فلوٹیلا پر حملے کے خلاف اورا ہل فلسطین و حماس سے یکجہتی و اتحاد امت کے اظہار کے لیے شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ”یکجہتی غزہ مارچ“ منعقد ہوا۔مارچ میں شہر بھر سے لاکھوں مردو وخواتین، مختلف طبقات و مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔فضا لبیک یا اقصیٰ لبیک یا غزہ کے نعروں سے گونجتی رہی۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے شاہراہِ فیصل پر عظیم الشان و تاریخی یکجہتی غزہ مارچ کے لاکھوں شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فلسطین کا کوئی دوریاستی حل قبول نہیں، ریاست صرف ایک فلسطین اور قیادت صرف ایک حماس کی ہے۔وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اہل پاکستان کی رائے دیکھ لیں،حماس کے مؤقف کو تسلیم کریں،حماس کے ترجمان بنیں اور کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ کو قبول کیے بغیر پاکستان میں حماس کا دفتر کھولنے کا اعلان کریں۔دیگر اسلامی ممالک میں بھی حماس کا دفتر کھولا جائے۔ اپوزیشن و دیگر حکمران پارٹیاں بھی حماس اور اہل غزہ کی حمایت کریں اور کھل کر امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں،عمران خان بلاشبہ سیاسی قیدی ہیں،ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جیل سے دیگر اعلانات کی طرح حماس کی حمایت اور امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کے نام کی کوئی بھی چیز ہے وہ مقبوضہ فلسطین ہے،پاکستان کا قومی مؤقف وہی ہے جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اختیار کیا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔حکمران امریکی غلامی اختیار اور امریکہ و اسرائیل سے قربت پیدا نہ کریں،اسرائیل کو تسلیم کرنے یاابراہیم ایکارڈ کی طرف جانے کی جس نے بھی کوشش کی عوام کو اس کا ناطقہ بند کردیں گے۔
انھوں نے کہاکہ حماس کی بصیرت،بصارت،مزاحمت،جدوجہد قربانیوں اور سفارتی کوششوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جس نے مذاکرات بھی کیے اور ہتھیار بھی نہیں ڈالے،فلسطین میں اصل قیادت حماس ہے باقی سب ڈھکوسلا۔7اکتوبر کوحماس کے مجاہدین سے اظہار یکجہتی کے لیے عالمی یوم احتجاج کے موقع پر ملک بھر میں 11بجے دن عوام سڑکوں پر نکلیں۔عوام اپنے گھروں، طلبہ اسکولوں و کالجوں،وکلاء عدالتوں اور تاجر برادری اپنی دکانوں سے باہر نکل کر حماس کے مجاہدین سے اظہار یکجہتی کریں۔21,22,23 نومبر کومینار پاکستان لاہور میں اجتماع عام ہوگا جس کا پیغام ہوگا کہ چہرے نہیں نظام کوبدلو،بندوق کی حکمرانی،براہ راست مارشل لاء اور بالواسطہ مارشل لا سے بھی ملک نہیں چل سکتا۔
غزہ مارچ سے مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر اسامہ رضی،امیر کراچی منعم ظفر خان،نائب امرا کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ، نوید علی بیگ، سکریٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، مجلس وحدت المسلمین سندھ کے صدر باقر زیدی،سربراہ امت وحدت پاکستان علامہ امین شہیدی، جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق،ناظم کراچی اسلامی جمعیت طلبہ محمد آبش صدیقی نے بھی خطاب کیا۔
حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ کراچی کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جب ان کا مارچ ہرمارچ سے بڑا مارچ ثابت ہوتا ہے۔ اہل کراچی امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر ہیں،حماس اسلامی تحریک کی مزاحمتی تحریک بھی ہے۔ حکمران طبقہ حماس کا نام لینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ حکمران طبقہ ہر اس تحریک سے خوف زدہ ہوتا ہے جو عوام کی تحریک ہو۔ امریکہ و اسرائیل کے مخالف تحریک کو حکمران طبقہ پسند نہیں کرتا۔ ارد گرد کے ممالک امریکہ کی کاسالیسی کررہے ہیں۔ عرب کے ممالک حکمران بھی ٹرمپ کی چاپلوسی کرتے ہیں اور امت کی ترجمانی نہیں کرتے۔ حماس اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قانونی تحریک ہے۔
انھوں نے کہاکہ حماس نے ہتھیار اٹھائے ہیں تو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اٹھائے ہیں۔حماس نے 2006 میں فلسطین کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی۔ امریکہ میں ٹرمپ نے ان ہتھیاروں پر سے بھی پابندی ہٹالی جو گزشتہ صدر نے لگائی تھی۔ٹرمپ نے کھلی اجازت دی ہے جس کی ایما پر فلسطینیوں کا قتل کیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ مسلمانوں کا مسئلہ حل نہیں کرتی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی اجارہ داری ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اپنے موقف کو صحیح پیش نہ کرنا قوم کے ساتھ جھوٹ اور دھوکا ہے۔1917 میں اعلان بالفر کا اعلان کیا اور پوری دنیا سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں آباد کیا۔انہوں نے کہاکہ آج سے سو سال قبل بھی انڈیا میں آل انڈیا مسلم لیگ بھی اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا کرتی تھی۔ برصغیر پاک و ہند کے لوگ اول روز سے فلسطین کے ساتھ اور یہودیوں کے خلاف ہیں۔1940 کی قرارداد ایک فلسطین کے حق میں تھی اور دوسرے پاکستان کے لیے تھی۔وزیر اعظم پاکستان کو اگر ڈپلومیسی نہیں کرنا آتی تو حماس سے سیکھ لیں،2 سال میں ہزاروں فلسطینی شہید تو ہوئے ہیں لیکن پوری دنیا بیدار ہوگئی ہے۔
انھوں نے کہاکہ فلسطین میں قتل عام مسلم امہ کے بے حس و بے حمیت حکمرانوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر ہمارے حکمران متحد ہوکر اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کریں تو اسے ہمت نہیں ہوسکتی کہ مسلمانوں کا خون بہائے۔حماس کے مجاہدین نے ایک دن کے لیے بھی اسرائیل کو قبول نہیں کیا،حماس کے مجاہدین وہ ہیں جن کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو شہید کیا گیا ہے۔پاکستان کے عوام اہل غزہ اور حماس کے ساتھ ہیں۔پاکستان کے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں سے بھی کہنا چاہتے ہیں کہ دورنگی اور منافقت چھوڑدیں۔ کراچی کے کیماڑی سے چترال کے پہاڑوں تک عوام ایک کی بات کررہے ہیں کہ امریکا کی غلامی قبول نہیں۔جو امریکہ غلامی کرے گا تو ایسا نہ ہو کہ فارم 47 دھرا کا دھرا رہ جائے گا اور بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
انھوں نے کہاکہ اسرائیل کہتا ہے کہ ہم نے سرنگیں ختم کردی ہے تو پھر قیدی کس سے مانگتے ہو۔حماس کی طاقت کل بھی تھی اور حماس کی طاقت آج بھی ہے۔ 2 سال کے قتل عام کے بعد پورے قیدی نہیں چھڑوائے جاسکے جتنے قیدی بھی آئے ہیں وہ حماس نے بھجوائے ہیں۔اسرائیل نے 22 سالہ گریٹا پر تشدد کیا اور اسرائیل کا پرچم چومنے پر مجبور کیا۔یہ اسرائیل کا اصل چہرہ ہے،دنیا میں طاقت کے مراکز تبدیل ہورہے ہیں خود مغرب کے لوگ اپنے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔امریکہ لندن اور برلن میں بھی عوام حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔طاقت کا توازن حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں آرہا ہے۔ اسلام کا عادلانہ نظام ہی پوری دنیا میں امن قائم کرسکتا ہے۔ اہل اسلام دیوبندی، بریلوی، شیعہ سنی کے فرقوں میں بٹنا چھوڑ دیں۔
انھوں نے کہاکہ حماس کے مجاہدین فرقہ پرستی نہیں کرتے۔وہ جدوجہد اور مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں۔ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت کی طرف سے جاری مسووہ قوم کے سامنے لایا جائے،وزیر اعظم کی جانب سے ٹرمپ کے امن منصوبے کی حمایت میں کیا جانے والا ٹوئیٹ ڈیلیٹ کرکے قوم سے معافی مانگی جائے۔ پاکستان سفارتی کردار ادا کرے اور مصر کے ساتھ مل کر فلوٹیلا کا آغاز کرے۔اگر مصر رفح باڈر نہ کھولے تو اس سے تعلقات منقطع کیے جائیں،اگر حکمران یہ کام نہیں کرے گا تو ہم سمجھیں گے پاکستانی قوم حماس کے ساتھ اور حکمران اسرائیل کے ساتھ ہیں۔جب تک پاکستان میں جمہوریت نہیں ہوگی فارم 47 کی جعلی حکومت ختم نہیں ہوگی عوام کے حالات نہیں بدلیں گے۔
انہوں نے کہاکہ ملک میں موجود فارم 47 کی پیدوار جو ٹرمپ سے ملاقاتیں کررہے ہیں وہ بتائیں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ 20 نکاتی منصوبے پر شاہ سے شاہ کے وفاداروں نے منصوبے کے آنے سے قبل ہی حمایت کا اعلان کردیا۔نائب وزیر اعظم حمایت کے اعلان کے بعد صفائیاں دینے شروع کردی ہے۔ ہم حماس کے ہر فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ حماس نے 20 میں سے 9 نکات کو تسلیم کیا ہے جسے عرب ممالک نے بھی تسلیم کیا ہے۔حماس نے کہا کہ ہم معاہدے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن بقیہ 11 نکات پر بات کی جائے گی۔منعم ظفر خان نے کہاکہ شاہراہِ فیصل پر تاحد نگاہ عوام کا ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر ہے۔ اہلیان کراچی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے کراچی کے باسیوں کا مان رکھا ہے۔
انھوں نے کہا اہل کراچی اہل غزہ کے ساتھ ہے۔آج پورا عالم اور خاص طور پر مغرب کے عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف اور فلسطین سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔مغربی عوام اپنے حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ تم نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر گرفتار کیوں کیا۔ اسرائیل سن لے کہ حماس اور اہل غزہ کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ ہم حکمرانوں سے کہہ دینا چاہتے ہیں کہ فلسطین کے مسئلہ پر صرف قائد اعظم محمد علی جناح کا موقف چلے گا۔ ایک ہی حل ہے اور وہ صرف فلسطین کی آزادی ریاست ہے۔ پوری دنیا کے باضمیر انسان حماس کی پشت پر موجود ہیں۔مسجد اقصی کو صیہونیوں کے قبضے سے آزادی نصیب ہوگی۔سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ اہل غزہ نے ثابت کردیا ہے کہ ایمان اور جذبہ،شوق شہادت سے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، اہل غزہ اور حماس نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ کس طرح آزادی کی جدوجہد کی جاتی ہے اور کس طرح غلامی کی زنجیریں توڑ دی جاتی ہیں۔