رپورٹ: محمد نعمان:
ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) میں ایک بار پھر جعلی بھرتیوں کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ اس سے قبل 53 اور پھر 19 افسران و ملازمین کی جعلی بھرتی کے ثبوت سامنے آئے تھے جس پر 5 افسران معطل کرکے انکوائری دبا دی گئی تھی۔ یہ افسران و ملازمین متحدہ دور میں بھرتی کیے گئے تھے۔ اب دوبارہ شروع ہونے والی تحقیقات سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے دور میں ہونے والی بھرتیوں سے متعلق شروع کی گئی ہے۔ جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے جعلی بھرتیوں کی تحقیقات کو مزدور دشمن فیصلہ قرار دیتے ہوئے پورے سندھ میں تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔
کے ڈی اے میں ایک بار پھر سے جعلی بھرتیوں کی تحقیقات شروع ہوگئی ہے۔ لیٹر کے مطابق محکمہ لوکل گورنمنٹ نے اسپیشل سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ سیکریٹری ہوں گے۔ ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے اور میونسپل کمشنر کے ایم سی بھی کمیٹی کے ممبران میں شامل ہوںگے۔ جبکہ تحقیقاتی کمیٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر تحقیقات کررہی ہے۔
یاد رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کے ڈی اے کے متعدد افسران و عملے کی بھرتی کو مشکوک قرار دیا تھا۔ کمیٹی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دور میں ہونے والی بھرتیوں کی تحقیقات کرے گی اور 15 روز میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ مرتب کرے گی۔ اس سے قبل اگست 2024ء میں سابق ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے شجاعت حسین کے دور میں تحقیقات کی گئی تھی جس میں 53 ملازمین جعلی قرار دے کر ان کی تنخواہیں روک دی گئی تھیں۔ 2024ء میں ہونے والی تحقیقات میں 17سے 18گریڈ کے افسران جعلی ہونے کے ثبوت سامنے آئے تھے۔
تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ سیکریٹریٹ میں 5 سے زائد خواتین کو جعلی بھرتی کیا گیا ہے۔ فہرست کے مطابق ایم آر نمبر 13351شازیہ فاطمہ ، ایم آر نمبر 13213شبانہ فاطمہ ، ایم آر نمبر13165سونیا احمد ، ایم آر نمبر13503 ندا جاوید ، ایم آر نمبر 12592 اسما کنول، ایم آر نمبر 13349 ارم فراز، ایم آر نمبر 13163 وسیم الحسن اور ایم آر نمبر 13074 اسد حسین کو جعلی بھرتی کیا گیا۔ لیٹر کے مطابق میڈیکل رجسٹرڈ نمبر 13998 کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ میں تعینات صنوبر اقبال کی جعلی بھرتی کیس میں تنخواہ روکی گئی ہے۔ اسی طرح لائنز ایریا ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ میں تعینات میڈیکل رجسٹرڈ نمبر 13999خضر افضال ، گلزار ہجری انجیئنرنگ ڈپارٹمنٹ میڈیکل رجسٹرڈ نمبر 14001 عبدل واسع صدیقی اور فہرست کے مطابق محکمہ پی اینڈ یو ڈی میں 7 سے زائد جعلی بھرتیاں سامنے آئیں جن میں میڈیکل رجسٹرڈ نمبر 14003 حنا علیم ، میڈیکل رجسٹرڈ نمبر 14004 صائمہ عادل ، میڈیکل رجسٹرڈ نمبر سید عباد انور رضوی ، ایم آر نمبر 12929 عمران علی خان، میڈیکل رجسٹرڈ نمبر 14006 مہراب عمران ، میڈیکل رجسٹرڈ نمبر 14007 اویس وہاب، ایم آر نمبر 14008 دلدار احمد کو محکمہ پی اینڈ یو ڈی میں جعلی بھرتی کیا گیا ہے۔ اے پی سی لینڈ کے ایم آر نمبر 14009 کامران علی ، لائنر ایریا پروجیکٹ کے ایم آر نمبر14010 عتیق الرحمان ، ری اسٹالمنٹ کے ایم آر نمبر 14012 جمیل احمد ، ملیر بن کے ایم آر نمبر 14013 عظیم خالد،لینڈ کے ایم آر نمبر 14014 محمد رضی ، لینڈ اینڈ اسٹیٹ کے ایم آر نمبر 14015 محمد سرفراز اسلم بھی جعلی بھرتیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اسی طرح ایم آر نمبر 14016 اللہ بخش، ایم آر نمبر 14028ک ائنات جاوید ، ایم آر 15383 عادل مجید، ایم آر 12988 عبداللہ قریشی ، ایم آر 12998 عبدالواسع ، ایم آر 13270 حمزہ جعلی بھرتی کیئے گئے۔ فہرست کے مطابق ایم آر نمبر 12981 احمد قریشی ، ایم آر نمبر 13435 عدیل خان ،13071 محمد خضر، ایم آر نمبر 13801 عدینہ جاوید ، ایم آر نمبر 12544 محمد عامر ، ایم آر نمبر 13994 امیر حمزہ اور ایم آر نمبر14002 عاطف جعلی بھرتی کیے گئے ہیں۔
فہرست میں 5 ایسے ملازمین کا ذکر بھی کیا گیا جن کا تعلق کسی بھی محکمے سے نہیں ہے لیکن انہیں کے ڈی اے تمام سہولیات فراہم کررہا ہے۔ فہرست کے مطابق ایم آر نمبر14017 فہد ناصر، ایم آر نمبر14022عمیر، ایم آر نمبر 14023 حمزہ علی اور ایم آر نمبر14024سعد الرحمان کا کسی محکمے سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ادارہ ترقیات انہیں میڈیکل سمیت تمام سہولیات فراہم کررہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اسٹاف ویلفیئر سیکریٹریٹ کی ایم آر نمبر 13065شگفتہ ، ایم آر نمبر 13068 شارق اسحاق زئی ،13350 ایس عامر رضا ، 13063 ملکہ اور 13500محمد وقاص عباسی اسٹاف ویلفیئر سیکریٹریٹ میں تعینات ہوئے۔ لینڈ ڈپارٹمنٹ کے ایم آر نمبر13751 حسن رضا، ایم آر نمبر 12886 وسیم احمد بھی جعلی بھرتی ہوئے ۔
مذکورہ تحقیقات میں گریڈ 18 پروگرام افسر نور احمد کو جعلی بھرتیوں کے کیس میں ملوث ہونے کے الزام پر معطل کیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈپٹی سیکریٹری کے ڈی اے ظفرحمید عباس، اکاؤنٹ افسر پولی کلینک (ایف اینڈ اے) محمد جمیل ، اسٹینو گرافر بل کلرک شکیل احمد اور آڈیٹر ایف اینڈ اے محمد یوسف کو جعلی بھرتی کے کیس میں معطل کیا گیا تھا۔ اس تحقیقات کے بعد کے ڈی اے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا تو مزید 19 افسران و ملازمین جعلی سامنے آئے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ بھرتیاں بھی متحدہ دور میں کی گئی تھیں جب ان پر تحقیقات شروع ہوئی تو متحدہ کے حمایت یافتہ افسران و ملازمین نے سابق ڈی جی کے ڈی اے کے خلاف متعدد احتجاج ریکارڈ کروائے جس کے بعد شجاعت حسین کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ کے ڈی اے میں ایک بار شروع ہونے والی جعلی بھرتیوں کی تحقیقات پھر سے سردخانے کی نظر ہونے کا خدشہ ہے، اس کی بڑی وجہ سیاسی دباؤ ہے۔
مذکورہ جعلی بھرتیوں کی تحقیقات پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کہنا ہے کہ کے ڈی اے ایمپلائز یونین کے انتخابات پر بدترین شکست سے دوچار ہونے والی سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ ادارہ ترقیات کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے دور میں ہونے والی تقرریوں کی تحقیقات کے نام پر حکومتی جانبدار کمیٹی کا قیام کراچی کے مزدوروں اور بلدیاتی اداروں کے ساتھ بدترین ناانصافی ہے۔ اگر حکومت واقعی شفاف احتساب چاہتی ہے تو اسے پورے سندھ کے میونسپل اداروں اور کارپوریشنز کو اس عمل میں شامل کرنا ہوگا، ورنہ یہ اقدام سراسر جانبداری اور تعصب کے زمرے میں آتا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos