فائل فوٹو
فائل فوٹو

غزہ امن منصوبہ خطرے میں ہے ؟

امت رپورٹ:
غزہ امن منصوبہ خطرے میں ہے۔ مسودے میں تبدیلی کے بعد اصل امن منصوبہ اپنی موت آپ مرچکا۔ اب نیا امن منصوبہ تیار کرنا ہوگا۔ یرغمالی، حماس کے پاس آخری بارگیننگ چِپ ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد نیتن یاہو آنکھیں بدل سکتا ہے۔

غیر مسلح ہونے پر حماس ارکان کو موساد چن چن کر نشانہ بنانے کی کوشش کرسکتی ہے کہ اس کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ امن فوج کو غزہ سے باہر رکھا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار معروف دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کیا ہے۔ اس سارے معاملے پر ان کا کہنا ہے ’’غزہ کے لیے بیس نکاتی امن منصوبہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پچیس ستمبر کو آٹھ مسلم ممالک کے سربراہان کے سامنے پیش کیا گیا اور اسے قبول کر لیا گیا۔

کچھ خامیوں کے باوجود اسے قبول کرنے کی بنیادی مجبوری یہ تھی کہ غزہ میں خونریزی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور بھوک کے مارے لوگوں کو انسانی امداد کی فراہمی بحال کی جائے۔ یہ منصوبہ اس لیے بھی منظور کیا گیا، کیونکہ اس نے مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کے لیے ایک روڈ میپ دیا تھا۔ اس کا اعلان واشنگٹن میں دھوم دھام سے کیا گیا اور امن کے لیے ’آخری موقع‘ کے طور پر اس کی مارکیٹنگ کی گئی۔ اسے وقت سے پہلے عرب اور اسلامی ریاستوں کی حکومتوں نے بھی منایا۔

پوری دنیا نے سکون کی سانس لی کہ کم از کم ایک فلیش پوائنٹ ڈی فیوز ہونے والا ہے۔ لیکن یہ ساری خوشیاں اس وقت مانند پڑ گئیں جب اس اصل امن منصوبے میں ترمیم کردی گئی۔ انتیس ستمبر کو نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر امن منصوبہ تبدیل کردیا۔ نیتن یاہو کچھ بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا اور دو قومی ریاستی حل کے تصور کو دفن کرنا چاہتا تھا۔ انتہا پسند اسرائیلی حکومت ایک نظریہ پر قائم ہے اور چاہتی ہے کہ تمام عرب ریاستیں اسرائیل کو ’ابراہیم معاہدے‘ کی روح کے تحت تسلیم کریں۔ نتیجتاً، اصل مسودے کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اور ایک مکمل طور پر اسرائیل نواز منصوبہ، بدلی ہوئی شرائط کے ساتھ آٹھ مذاکرات کاروں ( مسلم ممالک) کو اعتماد میں لیے بغیر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، جو دھوکہ دہی اور خیانت کے مترادف ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ آٹھ رکنی وفد اتنا زیادہ پر اعتماد کیوں تھا کہ طے شدہ منصوبے پر نتن یاہو رضامند ہو جائے گا؟ انہوں نے تین دن بعد ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان اہم ملاقات کا انتظار کیوں نہیں کیا؟ تب تک، انہیں منطقی طور پر اپنی خوشی کے اظہار کو روک لینا چاہیے تھا۔‘‘

آصف ہارون کے بقول ’’نظرثانی شدہ منصوبے میں حماس کو غزہ سے جلاوطن کرنے کے بعد ان کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ اسرائیلی فورسز اور موساد ماورائے علاقائی قتل و غارت کے لیے مشہور ہیں۔ حماس کے سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنے کے لیے دوحہ پر حملہ اس کی ایک مثال ہے۔ پھر یہ کہ اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ وہ حماس اور حزب اللہ کے ہر رکن کے خاتمے تک خود کو محفوظ نہیں سمجھے گا۔ حماس کے ساتھ سودے بازی کی واحد چِپ یرغمالی ہیں، جس نے اسرائیلی قیادت کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس لیے اس نے حماس سے ایک ہی بار میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں (زندہ اور مردہ) کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی مطلوبہ تعداد کو فوری رہا کرنے کے لیے اسرائیل پر ایسی کوئی مجبوری نہیں ڈالی گئی۔ درحقیقت انہیں بعد کی تاریخ میں آزاد کر دیا جائے گا۔ مختص فلسطینی قیدیوں کی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔

اسی طرح تبدیل شدہ منصوبے کے تحت حماس اور دیگر مزاحمتی قوتوں کی ملک بدری کے بعد اسرائیلی فوج غزہ میں موجود رہے گی اور انخلا کی مکمل تاریخ بتائے بغیر مرحلہ وار پیچھے ہٹ جائے گی۔ جب کہ میری معلومات کے مطابق امن کی فوجیں غزہ سے باہر رہیں گی اور ان کا کنٹرول ٹرمپ اور ٹونی بلیئر کی مشترکہ انتظامیہ کے پاس ہوگا۔ ٹونی بلیئر دو ہزار تین میں عراق کی جنگ میں اپنے غیر اخلاقی طرز عمل کے لیے بدنام ہے۔ اس کی بڑے پیمانے پر تباہی کا ہتھیار کی جھوٹی گواہی لاکھوں عراقیوں کی ہلاکت اور بے گھر ہونے کا باعث بنی تھی۔ یہ پہلا موقع ہو گا کہ عرب اور مسلم ممالک کے اقوام متحدہ کے امن دستے بیرونی لوگوں کی نگرانی میں جنگی زون کے باہر سے کام کریں گے۔ دیکھنا یہ کہ غزہ کی تعمیر نو میں مصروف امریکی تعمیراتی کمپنیوں کو کون تحفظ فراہم کرے گا؟ اگر امن فوج غزہ میں داخل نہیں ہوسکتی تو کیا یہ نیٹو ہوگی؟‘‘

آصف ہارون کے نزدیک مسلم امن دستوں کو غزہ سے باہر رکھنے کی وجہ واضح ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز اور موساد کو غزہ میں آزادانہ طور پر کام کرنے، حماس اور اسلامی جہاد کے جنگجوؤں کو انکلیو میں تلاش کرنے، سرنگوں اور ممکنہ ہتھیاروں کے ذخائر کو تباہ کرنے اور لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کی آزادی مل جائے گی۔ یہ بھی بڑا اہم سوال ہے کہ کیا ٹرمپ اور بلیئر غزہ پر حکومت کرنے کے لیے منصفانہ طور پر ٹیکنوکریٹس کا انتخاب کریں گے اور اگر نہیں، تو کیا ان کا انتخاب غزہ کے عوام کے لیے قابل قبول ہوگا اور اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

تبدیل شدہ امن منصوبے میں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی گئی ہے کہ اسرائیل فورسز اگر بتدریج کبھی غزہ سے چلی بھی جاتی ہیں تو واپس نہیں آئیں گی۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے شمالی حصے میں اپنی فورسز کو برقرار رکھے گا اور اسے جنوبی اسرائیل کی حفاظت کے لیے لانچنگ پیڈ، یا سیکورٹی بفر بنائے گا۔ فلسطین کی آزاد ریاست، اس کی وسعت، اور کیا یہ انیس سو سڑسٹھ سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہوگی، اس کا کوئی واضح ذکر نہیں ہے، جس میں القدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔ نیتن یاہو کا گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی یروشلم کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس نے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا ہے۔

تبدیل شدہ منصوبے میں یہ ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کو مربوط کیا جائے گا۔ موجودہ شکل میں، دونوں الگ الگ رہیں گے اور ٹرمپ کی یقین دہانیوں کے باوجود مغربی کنارہ اسرائیل کے ساتھ جڑا رہے گا۔ آصف ہارون کا مزید کہنا تھا ’’امریکہ کے دوسرے صدور کی طرح ٹرمپ بھی صیہونیوں، امریکہ میں یہودی لابی، دائیں بازو کے عیسائی مشیران اور اسرائیل کے سامنے بے بس ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسی ان طاقت کے مراکز سے چلتی ہے اور وہ ان کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ جہاں حماس کو غزہ کی حفاظت کے لیے مزاحمتی جنگ چھیڑنے پر سزا دی گئی ہے، وہیں معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث اسرائیل کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔

نیتن یاہو کو جو انٹر نیشنل کرمنل کورٹ کی طرف سے چارج شیٹ کیا جاچکا ہے، اسے انسانیت سوزجنگی جرائم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ عالمی عدالت نتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع گیلانٹ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرچکی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیلیوں کو متاثرین اور معصوم بناکر پیش کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔ کیا محصور فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں ہے؟ اس سے بڑی ناانصافی کیا ہوسکتی ہے کہ غزہ کو بڑے پیمانے پر ملبے میں تبدیل کرنے اور دو لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرنے کے باوجود اسرائیل جنگی معاوضہ بھی ادا نہیں کرے گا۔‘‘

آخر میں آصف ہارون کا کہنا تھا ’’چونکہ اصل امن منصوبہ مسخ ہو چکا ہے، تمام عملی مقاصد کے لیے یہ اپنی موت آپ مر گیا ہے اور اب قابل عمل نہیں رہا۔ لہذا باہمی اتفاق سے ایک نیا امن منصوبہ تیار کرنا ہو گا اور اسے معتبر، منصفانہ اور دیرپا بنانے کے لیے مذاکرات میں حماس سمیت فلسطینیوں کے نمائندوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ منصوبے کی توثیق کرنے سے پہلے، امریکہ اور یورپ سے تحریری ٹھوس ضمانتیں حاصل کی جانی چاہئیں۔ تاکہ اسرائیل امن منصوبے پر عمل سے پیچھے نہ ہٹ سکے۔ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک قابل عمل مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اسرائیل اپنی بات سے پیچھے ہٹنے اور بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کے لیے بدنام ہے۔‘‘