فائل فوٹو
فائل فوٹو

سونے کی برآمدات بند ہونے سے صرافہ بازار ویران

عمران خان :
پاکستان سے سونے کی برآمدات بند ہونے سے ہزاروں کاریگر بے روزگار ہوچکے ہیں۔ جبکہ جیولرز مارکیٹس میں مایوسی بڑھنے لگی ہے۔ اسی طرح قیمتی زر مبادلہ کی مد میں قومی خزانے کو مسلسل نقصان کا سامنا ہے۔ وزیراعظم آفس میں معطل ایس آر او کی بحالی کی فائلیں دھول چاٹنے لگیں ہیں۔ چھ ماہ سے سونے کی برآمدات بند ہیں، درجنوں سمریاں زیر التوا ہیں اور جیولرز دیوالیہ ہونے لگے ہیں۔ جبکہ متعلقہ وزارت اور بیوروکریسی معاملے کو سلجھانے کے بجائے مسلسل الجھانے میں مصروف ہے۔

مارکیٹ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت پاکستان میں سونے کی درآمد و برآمد سے متعلق پالیسی ایک بار پھر غیر یقینی کا شکار ہے۔ وزیراعظم آفس میں ایس آر او 760(1)/2025 کی بحالی سے متعلق سمریاں پچھلے ڈھائی ماہ سے التوا میں پڑی ہیں، جس کے باعث نہ صرف برآمد کنندگان شدید مالی دبائو کا سامنا کر رہے ہیں۔ بلکہ ملک بھر کی جیولرز مارکیٹ میں غیر معمولی بے چینی پھیل چکی ہے۔ جیولرز مارکیٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت تجارت کی جانب سے ایس آر او کی بحالی کے لیے تین الگ سمریاں وزیراعظم آفس بھجوائی گئیں، مگر تاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اس تاخیر نے زیورات سازی کی صنعت کے سینکڑوں یونٹس کو بندش کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزارتِ تجارت کی جانب سے تین بار بھجوائی گئی سمریاں اب تک وزیراعظم آفس میں زیرِ التوا ہیں۔ ان سمریوں کا تعلق اسی ایس آر او 760(1)/2025 سے ہے جو ملک میں سونے کی درآمد و برآمد کو منظم کرتا ہے۔ تاہم اسے رواں سال مئی 2025ء میں ’’اسمگلنگ کے خدشات‘‘ کے نام پر عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔ یہ معطلی، جو صرف 60 دن کے لیے کی گئی تھی اب چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بحال نہیں ہو سکی ہے۔ جیولرز برادری اسے معاشی قتل قرار دے رہی ہے۔

وزارتِ تجارت نے 6 مئی 2025ء کو ایک حکم نامے کے ذریعے ایس آر او 760(1)/2025 کو معطل کیا، جس کے تحت سونے کی درآمد، برآمد اور دوبارہ برآمد (re-export) کے تمام قانونی ضوابط طے کیے گئے تھے۔ یہ اقدام مبینہ طور پر سونے کی اسمگلنگ کے خدشات کے پیشِ نظر اْٹھایا گیا۔ تاہم، آل پاکستان اسمال جیمز، جیولرز اینڈ ٹولز ایسوسی ایشن (APSGJTA) کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ کا کوئی ثبوت اب تک سامنے نہیں آیا۔ اس ضمن میں ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری قاری محمد اشرف کا کہنا تھا کہ ’’چھ ماہ گزر گئے، نہ کوئی کیس بنا، نہ کوئی اسمگلر پکڑا گیا۔ مگر ہم سب سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ ایک پورے برآمدی شعبے کا معاشی قتل ہے۔‘‘

اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے 6 اگست 2025ء کو وزیرِ تجارت جام کمال خان سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں وزیر تجارت نے واضح یقین دہانی کرائی کہ ایس آر او کی بحالی کے لیے سمری وزیراعظم شہباز شریف کو بھیجی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق، وزارت نے پچھلے ڈھائی ماہ میں تین بار سمریاں بھیجیں۔ پہلی 80 دن قبل، دوسری 60 دن پہلے اور تیسری صرف 15 دن قبل۔ مگر تینوں فائلیں اب تک وزیراعظم کے آفس میں اٹکی ہوئی ہیں۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ وزارت تجارت نے ساری کارروائی مکمل کر لی تھی، مسئلہ اب وزیراعظم آفس کے اندر ہے۔

ذرائع کے مطابق اس وقت کراچی پورٹ پر تقریباً 50 کلوگرام سونا مختلف برآمدی کنسائنمنٹس کی شکل میں پھنسا ہوا ہے۔ برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ ایس آر او معطلی کے باعث کسٹمز کلیئرنس ممکن نہیں، جس سے بین الاقوامی معاہدے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے بتایاکہ ہمیں بیرون ملک کے خریداروں کی طرف سے قانونی نوٹس ملنے لگے ہیں۔ دبئی، قطر اور سعودی عرب کے کلائنٹس ڈیڈ لائن پوری نہ ہونے پر ہرجانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس دوران کئی جیولرز یونٹ بند ہو گئے ہیں اور کاریگر بے روزگار بیٹھے ہیں۔ لاہور اور کراچی کی مارکیٹوں میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ بولٹن مارکیٹ کے ایک جیولر نے بتایا ’’پہلے روزانہ تین سے چار آرڈرز ملتے تھے۔ اب ہفتوں کوئی خریدار نہیں آتا۔ کاریگر مزدوری مانگتے ہیں تو ہم شرمندہ ہو جاتے ہیں۔‘‘

مزید معلوم ہوا ہے کہ ایس آر او کے معاملے نے اب پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی توجہ بھی حاصل کر لی ہے۔ کمیٹی نے جولائی 2025ء میں پانچ اجلاس منعقد کیے جن میں وزارتِ تجارت کے افسران کو وضاحت کے لیے طلب کیا گیا۔ کمیٹی کی رپورٹ 4 جولائی کو وزیراعظم آفس ارسال کی گئی، جس میں سفارش کی گئی کہ ایس آر او فوری بحال کیا جائے۔ کیونکہ نہ تو کوئی غیر قانونی برآمدات ثابت ہوئیں اور نہ کوئی ڈیٹا تضاد سامنے آیا۔ تاہم وزیراعظم آفس نے 28 جولائی کو وزارت کو مزید مشاورت کی ہدایت دی۔

اس کے بعد 8 اگست کو ایک آن لائن زوم اجلاس ہوا جس میں جیولرز، برآمد کنندگان اور وزارت کے نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں تمام شرکا نے متفقہ طور پر سفارش کی کہ ایس آر او بحال کیا جائے۔ وزارتِ تجارت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزارت کے اندر بھی اختلافِ رائے موجود ہے۔ کچھ افسران سمجھتے ہیں کہ ایس آر او فوری بحال ہونا چاہیے، کیونکہ کسی بے ضابطگی کا ثبوت نہیں ملا۔ مگر چند لوگ جان بوجھ کر معاملہ کھینچ رہے ہیں تاکہ اپنی ’اہمیت‘ برقرار رکھ سکیں۔

ذرائع کے مطابق، وزارتِ خزانہ اور کسٹمز کے بعض افسران کا موقف ہے کہ ایس آر او بحال کرنے سے پہلے اسمگلنگ کے خطرات پر دوبارہ نظرِ ثانی ضروری ہے، جس کے باعث سمریوں کی منظوری میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ سونے کی برآمدات معطل ہونے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دبائو بڑھ رہا ہے۔

پاکستان سالانہ تقریباً 450 ملین ڈالر کے زیورات برآمد کر رہا تھا۔ اس تعطل نے نہ صرف برآمدات روکی ہیں، بلکہ روزگار کے ہزاروں مواقع بھی ختم کر دیے ہیں۔ ذرائع نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے بروقت فیصلہ نہ کیا تو خلیجی ممالک کے خریدار بھارت، دبئی اور بنگلہ دیش سے متبادل سپلائرز تلاش کر لیں گے، جس سے پاکستان کے لیے مارکیٹ دوبارہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔

اس حوالے سے آل پاکستان جیولرز ایسوسی ایشن کے صدر نے حکومت کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا ’’ہم چھ ماہ سے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ اگر اب بھی وزیراعظم شہباز شریف نے براہِ راست مداخلت نہ کی تو ہم اجتماعی طور پر عدالت سے رجوع کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس آر او کی معطلی نے کاروباری طبقے میں حکومت پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ ہم برآمدات بڑھانے کی بات کرتے ہیں مگر پالیسیاں خود ہی راستہ بند کر دیتی ہیں۔‘‘

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آفس میں ایس آر او کی بحالی سے متعلق فائلیں مختلف محکموں کی تصدیق کے مراحل میں ہیں۔ ایک افسر کے بقول فائل کبھی لیگل ونگ میں چلی جاتی ہے، کبھی فنانس ڈویژن میں۔ ہر کوئی اپنی رائے دینا چاہتا ہے، مگر کوئی فیصلہ کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب کاروباری حلقوں میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ وزیراعظم آفس، بیوروکریسی کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ جبکہ سونے کی تجارت پر عائد اس عارضی پابندی نے دراصل حکومت کی فیصلہ سازی کے ڈھانچے کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا ہے۔

یہ معاملہ اب محض ایک ضابطہ یا ایس آر او نہیں، بلکہ ایک ایسی پالیسی کا آئینہ ہے جو ملکی برآمدات کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اگر یہ تعطل مزید طویل ہوا تو نہ صرف پاکستان قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوگا بلکہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بھی کھو دے گا۔