تبصرہ : سعدیہ شکیل
ہمارے شعور نے آنکھ کھولی تو خود کو علم و ادب کے گہوارے میں پایا۔ ناناسفیر لاشاری سرائیکی کے مشہور شاعر تھے، ماما انجم لاشاری بھی ادیب شاعر و صحافی۔۔ ماموں نذیر لغاری بھی شاعر ادیب و صحافی ۔۔الغرض ہم فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو آنکھ ہی صحافت کے پالنے میں کھولی
اور پھر یوں ہوا کہ شادی بھی صحافی صاحب سے ہوگئی ۔ادب و صحافت سے وابستگی کی وجہ سے کراچی ارٹس کونسل اور کراچی پریس کلب میں میکہ و سسرال مانند آنا جانا لگا رہتا، جس کی وجہ سے بڑی بڑی علمی و ادبی شخصیات سے میل ملاقاتیں رہیں،جن سے ہم نے بہت کچھ جانا، بہت کچھ سیکھا، یہاں تک کہ الحمدللہ ہم بھی لکھاری و شاعرہ بن گئے۔
علمی ادبی حوالے سے چند شخصیات جو ماموں انجم لاشاری و نذیر لغاری کے قریب رہیں جن کے نام بڑی محبت و احترام سے پکارے جاتے، ان میں اک نام نہایت محترم جناب سجاد عباسی صاحب کا ہے۔ نرم خو،ملنسار، قلم کی حرمت کو سمجھنے والی ہستی، کہ جس نے جب بھی لکھا، تپاکِ جاں سے لکھا۔ آرٹیکل سے تجزئے ، تبصرے پڑھتے پڑھتے ہمارے ہاتھ ان کی انٹرویوز کی کتاب "صحافت بیتی” آن لگی. نام پڑھ کر میاں جی کو ہنستے ہوئے کہا "ارے واہ.. مجھے موقع ملا تو ان سے کہوں گی کیا خوب نام رکھا جناب.. مگر سچ پوچھیں تو صحافت دراصل ہم بیویوں پر بیتی،جن کےمجازی کبھی منہ اندھیرے گھر لوٹتے تو کبھی صبح صادق دفتر رخصت ہوتے اور بچے بےچارے پوچھتے رہ جاتے بابا کب آئے؟ یا کب آئیں گے ، سئیں آپ کی صحافت ہماری کئی چھوٹی چھوٹی خوشیاں نگل گئی۔شہر آشوب کی قہر رتوں میں آپ کی راہ تکتے حفاظت و خیر کی دعائیں مانگتے دھڑکتے دہلتے دل و وجود پر جو کچھ گزری اسے میں بلا جھجک ہم پر "صحافت بیتی” کہوں گی
خیر دل کے پھپھولے بعد میں پھوڑیں گے ،ابھی سجاد عباسی صاحب کی شاندار کاوش پر بات کرلیتے ہیں ۔
حضرت میاں گل سمیت صوفیاء اور درویشوں کے روحانی مرکز، ہزارہ ثقافت کے نمائندہ علاقے بیروٹ کی مٹی کا خمیر اپنے وطن کی طرح سرسبز و شاداب مزاج سجاد عباسی پریوں کا دیس چھوڑ کر ہجر اوڑھے کراچی آیا تو صحافت کے دروں مونجھ سے مزاحمت کشید کرنے کا ہنر جان گیا ۔ایک زمانے کو اپنی تحریروں سے گرویدہ بنا نے ولا حریت ،پبلک ، جنگ گروپ کے عوام سے امت تک کے سفر میں نہ تھکا نہ جھکا اور نا ہی رکا۔
میں نے امت میں ان کے چند انٹرویوز پڑھے مگر پھر اخبارات بند ہو جانے کے باعث یہ سلسلہ رک گیا۔ یہ انٹرویوز قسط وار چھپنے کی وجہ سے من میں اک خلش رہی کہ کاش میں مکمل پڑھ پاتی۔یہ خلش اب "صحافت بیتی”کی صورت دور ہوگئی۔
صحافت بیتی، ایک غیرروایتی صحافتی کتاب ہے۔ یہ سوانح عمری نہیں، بلکہ سوانح صحافت ہے۔ ایسی صحافت جس میں اصول، قربانیاں، سچائی، خوف، جبر اور سسٹم کے خلاف ڈٹ جانے کی کہانیاں رقم ہیں۔
سجاد عباسی صاحب نے اِن صحافیوں کو اس لئے شامل نہی کیا کہ یہ شہرت کے عروج پر ہیں، بلکہ اس لئے کہ انہوں نے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور اس کی قیمت بھی چکائی۔ یہ
سات دھائیوں پر محیط پاکستانی صحافت کی کہانی
سات عینی شاہدین کی زبانی ہے۔
میرے نزدیک صحافت بیتی ایک مکمل بیانیہ ، اک داستان اک نصاب ہے۔
کتاب کا انتساب اپنے والدین و اساتذہ اکرام کے ساتھ ساتھ جینوئن صحافیوں کے نام کرتے ہیں۔ کتاب کی صاحبانِ مضمون کے علاوہ جناب راشد عباسی ،عبدالخالق بٹ، علی حمزہ افغان اور آفتاب اقبال نے اپنے قلم سے
خوبصورت پزیرائی کی ۔
صحافت بیتی میں جہاں کئی رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے، وہیں آپ کو بہت سی باتیں حیرت زدہ بھی کرتی رہینگی۔ اپنے اپنے انداز میں بسلسلہ روزگار اپنی ماں دھرتی، اپنے آبائی وطن کے پیر چوم کر پردیسی ہونے والے کس طرح کراچی آن بسے ،
وقت کی بھٹی میں جل کر کندن ہونے والوں کی کتھا پڑھنے والے کو کبھی ہنساتی تو کہیں رلاتی رہے گی ۔ آئیں ان سات سورماؤں کے بارے میں مختصراً جانتے ہیں ۔
1. محمود شام
ادیب۔ شاعر۔ نقاد ، ناول نگار
دانشور ۔۔صحافت کے نمائندہ، جن کی تحریر میں تاریخ بولتی ہے۔ان کا باب علم، زبان اور مطالعہ کی طاقت کا بیان ہے
2.مظہر عباس
سینئر صحافی ، تجزیہ نگار۔
صحافت اور سیاست کے دور ابتلاء کے گواہ جنہوں نے آمریت کے سائے میں سچ لکھا ۔جن کا بیان آئینی حقوق ،آزادی اظہار اور مزاحمت کی علامت ہے
4. نذیر لغاری
جہدِمسلسل کے امین۔ عوامی صحافت کے علمبردار ادیب ، مترجم ،ناول نگار نذیر لغاری صاحب کی زبان تلخ مگر سچّی ہے۔ ان کے تجربات پیدائشی بغاوت کی کہانی سناتے ہیں۔
4.وسعت اللہ خان
صحافت میں منفرد مقام رکھنے والے سینیئر صحافی۔ طنز و مزاح کا جادوگر، جن کی صحافت میں گہرائی بھی ہے اور لطافت بھی۔ ان کی تحریر دراصل اردو صحافت کا جمالیاتی پہلو
ہے
5.انور سن رائے
قلم قبیلے کا روشن چہرہ ۔ادیب ،ناول نگار سوچنے پر مجبور کر دینے والا بیانیہ۔ وہ صحافت کو صرف خبر نہیں بلکہ فکر کا ذریعہ سمجھتے ہیں
عارف الحق عارف.6
صحافت کی جانی مانی شخصیت۔
ادارتی صحافت کی باریکیوں سے واقف ایک استاد، جو بتاتے ہیں کہ کیسے دفتر کی سطح پر سچ چھانا جاتا ہے۔
7. زاہد حسین (فوٹو جرنلسٹ)
ایک تصویر، ایک ہزارلفظوں کے برابر۔ان کی کہانی بصری صحافت کی اہمیت اور خطرات کی تصویر کشی کرتی ہے۔ اس میں صورتحال کےادبی و فکری پہلو نظر آتے ہیں۔
صحافت بیتی ، میں سجاد عباسی کا انداز مکالماتی ہے، جو قاری کو محسوس کراتا ہے کہ وہ بھی اس مکالمے میں شریک ہے۔اسلوب میں سادگی ہے، مگر جملوں میں تاثیر،جذبات اور مقصدیت بھی ہے۔ انٹرویوز اس طرح پیش کیے گئے ہیں جیسے قاری خود کسی قہوہ خانے میں بیٹھ کر یہ باتیں سن رہا ہو، پر غیر جانب دار مصنف بعض جگہوں پر مداح کی حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔
تنظیم و ترتیب
انٹرویوز کی ترتیب موضوعاتی ہو سکتی تھی تاکہ قاری ایک تسلسل محسوس کرے۔
صحافتی واقعات کے کچھ مقامات پر حوالوں کا ذکر کمیاب ہے ۔ اگر اضافی مطالعہ کے لیے حوالہ دیا جاتا تو افادیت بڑھ جاتی ۔
صحافتی طالب علموں کے لیے یہ نصاب ہے، جسے پڑھ کر وہ یہ جان سکیں گے کہ صحافت صرف خبر دینا نہیں، خبر بچانا بھی ہے۔ مزاحمت صرف سیاستدانوں کا کام نہیں، ایک صحافی بھی قلمی مزاحمت کار "ہوتا ہے۔”
صحافت میں وقت، ذات، اور کبھی عزت کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔
صحافت بیتی ایک آئینہ ہے۔ایسا آئینہ جو صرف صحافت کو نہیں، خود قاری کو بھی دکھاتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ سچ کے ساتھ یا مصلحت کے ساتھ۔۔ یہ کتاب نہ صرف تاریخ کا ریکارڈ ہے، بلکہ ضمیر کو جگانے والی دستاویز بھی ہے۔ میرے نزدیک یہ کتاب ادب میں اک نمایاں اضافہ بھی ہے۔
میری طرف سے سجاد عباسی صاحب کو اس شاندار کاوش پر ڈھیروں دعائیں اور مبارکباد
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos