تحریک لبیک کیخلاف آپریشن۔ ایس ایچ او سمیت 5 جاں بحق، 40 گاڑیاں نذرآتش

مرید کے میں تحریک لبیک کے احتجاجی مارچ میں شریک مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے علی الصبح اپریشن کا اغاز کیا گیا۔اس کارروائی کے دوران ایس ایچ او شہید اور 17 اہلکار زخمی ہو گئے۔ پنجاب پولیس کے مطابق ایک عام شہری اور تین مظاہرین بھی جاں بحق ہوئے۔اپریشن کے بعد موقع پر پہنچنے والی صحافیوں کا کہنا ہے کہ مرکزی احتجاجی کنٹینر جل چکا ہے جبکہ دیگر گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ تحریک لبیک کے کارکن علاقے میں موجود نہیں۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے 40 گاڑیاں جلا ڈالیں۔

 

ذرائع کے مطابق رات گئے تحریک لبیک اور حکومت پنجاب کے درمیان مذاکرات ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔حکومت پنجاب کی جانب سے خواجہ سلمان رفیق اور چیف سیکرٹری پنجاب سمیت تین رکنی ٹیم نے مذاکرات میں حصہ لیا۔تحریک لبیک کی جانب سے تین مطالبات رکھے گئے جن میں املاک کے نقصان کی تلافی۔مبینہ طور پر جاں بحق ہونے والے افراد کی دیت اور تمام گرفتار شدگان کی فوری رہائی کے ساتھ کسی بھی کارکن کے خلاف مقدمہ قائم نہ کرنے کے مطالبات شامل تھے۔تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے فوری طور پر مطالبات منظور کرنے سے گریز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس حوالے سے کمیٹی قائم کی جائے گی جو ان مطالبات کی میرٹ کی بنیاد پر جانچ کے بعد فیصلہ کرے گی۔

بعد ازاں علی الصباح تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا گیا۔

شیخوپورہ پولیس کے ترجمان رانا یونس نے بتایا ہے کہ تحریک لبیک کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیر کی علی الصبح کی گئی کارروائی کے دوران ایس ایچ او انسپیکٹر شہزاد نواز جھمٹ پیٹ میں گولی لگنے کے باعث جاں بحق ہو گئے ۔ انسپیکٹر شہزاد نواز ایس ایچ او تھانہ فیکٹری ایریا تعینات تھے۔

دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس کارروائی کے دوران ان کے درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں، تاہم ان دعوؤں کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔

پنجاب پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ مریدکے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی – انتشار پسند گروہ کو منتشر کر دیا۔
جب منتشر کرنے کی کارروائی شروع ہوئی تو تحریک لبیک پاکستان (TLP) کے کارکنوں نے پتھراؤ، کیل دار ڈنڈوں اور پیٹرول بموں کا استعمال کیا۔ بعد ازاں انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو جانی نقصان پہنچا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی جان کے دفاع میں محدود کارروائی کرنا پڑی۔”

 

بیان میں کہا گیا کہ ایک ایس او شہید ہوگیا جب کہ پولیس و رینجرز کے 48 اہلکار زخمی ہوئے جن میں 17 کو گولیاں لگی ہیں۔

پنجاب پولیس نے کہا کہ ایک راہ گیر اور 3 ٹی ایل پی مظاہرین جاں بحق ہوئے۔

 

پولیس نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین نے چالیس سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیوں کو آگ لگائی۔

 

‘قانون نافذ کرنے والوں نے متعدد انتشار پسند لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔انتشار پسندوں کی گرفتاری کیلئے سرچ آپریشن جاری ہے۔ پنجاب پولیس شہریوں کے امن کو نقصان پہنچانے کی ہر گز اجازت نہیں دے گی۔”

 

پولیس ترجمان رانا یونس نے مزید بتایا کہ انسپیکٹر شہزاد نواز جھمٹ کی میت کو پوسٹ مارٹم کے بعد ڈسٹرکٹ پولیس لائنز شیخوپورہ لایا جا رہا ہے جہاں آج دوپہر کو ان کی نماز جنازہ ادا کر دی جائے گی۔

ترجمان کے مطابق اس آپریشن میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں جن کا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے جبکہ شدید زخمی ہونے والے اہلکاروں کو لاہور کے ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے واضح کیا ہے کہ مسلح جتھوں کو امن و امان میں خلل ڈالنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی اور اس حوالے سے قانون اپنا فرض پورا کرے گا۔

قبل ازیں مریدکے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پیر کی علی الصبح تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا تو انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکار مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کرتے رہے، جبکہ ٹی ایل پی کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ اس موقع پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔تاہم تحریک لبیک کے اموات سے متعلق دعوؤں کی کسی بھی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

البتہ تحریک لبیک کے آفیشل اکاؤنٹس پر شیئر کردہ ویڈیوز میں شیلنگ اور گولیاں چلائے جانے کی آوازیں سُنی جا سکتی ہیں، تاہم یہ واضح نہیں کہ گولیاں کس جانب سے چلائی جا رہی ہیں۔

تحریک لبیک کے ترجمان عرفان رضا قادری کا کہنا ہے کہ ’غزہ مارچ‘ میں شامل افراد فجر کی نماز کی ادائیگی کے لیے تیاری کر رہے تھے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے ان کے خلاف کارروائی کا اغاز کیا اور اس دوران فائرنگ بھی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اس سے قطع نظر ہوا کہ مارچ کے شرکا پرامن تھے اور قیادت کی طرف سے مارچ کے شرکا کو اپنا سفر جاری رکھنے کی ہدایات بھی نہیں دی گئی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جس کنٹینر پر پارٹی قیادت سوار تھی اس پر براہ راست شیلنگ کی گئی۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی بعض تصاویر میں جلا ہوا کنٹینر اور چند گاڑیاں دیکھی گئی ہیں۔

 

آپریشن میں شریک اہلکاروں کا موقف

 

مظاہرین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے مریدکے میں تعینات ایک پولیس افسر نے میڈیا کو بتایا کہ مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ اور غلیلوں میں پتھروں کی مدد سے حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

انہوں نے تصدیق کی کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل استعمال کیے گئے جبکہ پولیس قیادت کی طرف سے گولی چلانے کا حکم ہی نہیں ہے۔

البتہ پولیس کو واضح ہدایات ہیں کہ مظاہرین کے مارچ کو مریدکے سے آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ اتوار کے روز پنجاب کے پانچ اضلاع سے پولیس کے دستوں کو مریدکے پہنچایا گیا تھا جبکہ اسلام آباد پولیس کے مطابق 500 اہلکاروں پر مشتمل پولیس کے جوانوں کا دستہ بھی اتوار کو مریدکے پہنچا تھا۔اس بار تعیناتی کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں تحریک لبیک کے مظاہرین کے خلاف اپریشن کیا جا سکتا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ پانچ روز سے لاہور کے علاوہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں سمیت پنجاب کے کئی شہروں کا باہمی رابطہ منقطع تھا کیونکہ تحریک لبیک کے احتجاج کے پیش نظر جگہ جگہ کنٹینر لگا کر راستے بند کر دیے گئے تھے جس کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا تھا۔