پنجاب میں مبینہ پولیس مقابلوں کے بڑھتے واقعات پر انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جس کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک 670 سے زائد افراد ان مقابلوں میں ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر کارروائیاں نئی قائم شدہ ’کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ‘ (سی سی ڈی) کی جانب سے کی گئی ہیں۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق، جنوری 2025 سے اکتوبر تک صوبے میں 500 سے زائد مبینہ مقابلے ہوئے، جو ملک کے دیگر تمام صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔ کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ واقعات "ماورائے عدالت قتل کے خطرناک رجحان” کی نشاندہی کرتے ہیں، جو فوجداری نظامِ انصاف کے متبادل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ سی سی ڈی کو اصل میں منظم جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، تاہم اب یہ ایک متوازی فورس کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جسے وسیع اختیارات حاصل ہیں، جن میں ایف آئی آر درج کرنا، مشتبہ افراد کو حراست میں لینا، اور جان لیوا کارروائیاں شامل ہیں۔ کمیشن نے خبردار کیا کہ یہ طرزِ عمل آئین کے تحت انصاف کے تقاضوں، منصفانہ ٹرائل کے حق، اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتا ہے۔
ایچ آر سی پی کا بیان رحیم یار خان میں مبینہ پولیس مقابلے میں خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا، جسے ادارے نے "خطرناک رجحان” کی علامت قرار دیا۔ پولیس کے مطابق، طیفی بٹ کراچی سے لاہور منتقلی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا، تاہم کمیشن نے اس وضاحت کو ناکافی قرار دیا۔
پنجاب حکومت کے ترجمان نے ایچ آر سی پی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی سی ڈی قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہے اور ماورائے عدالت کارروائیوں یا طاقت کے غیر ضروری استعمال کے خلاف "زیرو ٹالرنس” پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارہ صرف سنگین مجرموں کے خلاف کارروائی کرتا ہے، جو گرفتاری کے دوران مزاحمت کرتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق، اب تک کوئی بھی واقعہ ایسا ثابت نہیں ہوا جس میں سی سی ڈی پر غیر قانونی کارروائی کا الزام درست قرار پایا ہو، اور اگر کسی شکایت کی اطلاع ملے تو فوری تحقیقات کی جاتی ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات عوام کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور ریاستی تشدد کے خطرناک رجحان کو تقویت دیتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos