نواز طاہر :
لاہور میں ٹی ایل پی کے مرکز سمیت اہم مقامات پر سیکورٹی حصار جاری ہے۔ تاہم اورنج ٹرین اور میٹرو بس سمیت کئی بند روٹ بحال کر دیئے گئے ہیں۔ مریدکے میں املاک کے نقصانات کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔ جبکہ دکانداروں سے لوٹ مار کے مقدمات الگ درج کیے جائیں گے۔ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی بھی خارج از امکان نہیں۔
واضح رہے کہ قانون نافذکرنے والے اداروں نے ٹی ایل پی کے قافلے کا مریدکے میں پڑائو ایک گرینڈ آپریشن کرکے ختم کردیا تھا۔ البتہ چھاپے رات کو اور اگلے روز منگل کو بھی جاری رہے۔ اس حوالے سے ٹی ایل پی کی جانب سے ویڈیو کلپ جاری کیے گئے اور بتایا گیا ہے کہ پولیس ان کے کارکنان کو گھروں سے نکال کر گرفتار کر رہی ہے۔ جنہوں نے پولیس سے بچنے کیلئے وہاں پناہ لے رکھی تھی۔
جبکہ آپریشن میں شامل اہلکاروں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران کارکنان اپنے سہولت کاروں کے پاس پناہ لینے کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کو ڈرا دھمکاکر بھی گھروں میں گھس گئے تھے۔ جنہیں وہاں سے نکال کر حراست میں لیا گیا۔ یہ کارکنان قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں اور تشدد میں ملوث ہیں۔
یاد رہے کہ پیر کو ’امت ‘ کے ذرائع نے بتایا تھا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے گھروں اور دکانوں میں بھی چھپ کر پولیس کے ہتھے چڑھنے سے جان بچائی۔ ان میں سے کئی کارکنان پولیس کی گاڑیوں پر حملہ کرنے، فائرنگ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے بھی ہیں۔ ان ذرائع نے یہ بھی تصدیق کی تھی کہ آپریشن کے وقت ٹی ایل پی کے امیر اور ان کے بھائی کارکنوں کے درمیان موجود تھے اور پھر وہیں سے غائب ہوگئے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ مریدکے، کے طبی اداروں میں بھی انہیں مرہم پٹی کیے جانے کا ریکارڈ ٹریس نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب تحریکِ لبیک پاکستان کے ذمہ داران براہ راست رابطے سے باہر ہیں۔ البتہ میڈیا سیل سے پیغام رسانی جاری ہے اور ان میں ہلاتوں کی تعداد کی بھی تصدیق نہیں ہو رہی۔ تاہم مختلف ذرائع سے اب تک پانچ افراد کی جان جانے کی تصدیق ہو رہی ہے۔
ایک روز قبل جب ترجمان سے لائحہ عمل کے بارے میں درافت کیا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ جو بھی موقف یا بات ہوگی وہ مرکزی میڈیا سیل کے ذریعے سبھی کو پہنچائی جائے گی۔ ٹی ایل پی کی قیادت کے بارے میں صوبے کی پارلیمان میں ان کے منتخب نمائندے محمود احمد بھی اس ضمن میں لاعلم ہیں۔ جنہوں نے پہلے روز کے آپریشن کے دوران تین ہلاکتوں کا دعویٰ کیا تھا۔ جبکہ ٹی ایل پی کی شوریٰ نے یہ تعداد دو بتائی تھی۔
پیر کے روز محمود احمد اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے اور اب بھی وہ ٹی ایل پی کے حوالے سے تازہ امور کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے ٹیلیفونک رابطے پر بتایا کہ وہ علالت کے باعث اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ جب ان سے اپنی قیادت کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے میں مکمل طور پر لاعلم ہیں۔ اس کے برعکس پولیس کے ایک انسپکٹر کی شہادت کی تصدیق پہلے ہی کر دی گئی تھی اور زخمی اہلکاروں کی تعداد بھی پچاس سے زائد بتائی گئی ہے۔ جن میں معمولی زخمی شامل نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی املاک کی تفصیل اور ان کے مالکان کی تفصیلات بھی اکٹھی کی جارہی ہیں۔ جس کے بعد ممکنہ طور پر مزید مقدمات بھی درج ہو سکتے ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق جن دکانداروں اور نجی افراد کو ٹی ایل پی کارکنوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان سے لوٹ مار کی گئی، ان کی تفصیل بھی اکٹھی کی جارہی ہے اور ان کیخلاف الگ مقدمات درج کیے جائیں گے۔ ٹی ایل پی کی قیادت کے بارے میں ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ سب لوگ کہاں ہیں۔ ٹی ایل پی پر پابندی لگائے جانے کی بازگشت کے حوالے سے ان ذرائع کا کہنا تھا کہ ابھی یہ باز گشت ہی ہے۔ لیکن اسے خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ جو مقدمات درج کیے گئے ہیں، ان میں گرفتاریاں بھی یقینی ہوں گی اور ٹرائل بھی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوں گے۔ حکومت کی طرف سے اگلے دو ایک روز میں اس کی تمام تفصیلات میڈیا کے سامنے لانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ لا ہور میں ٹی ایل پی کے مرکز سمیت اہم مقامات پر سیکورٹی حصار جاری ہے۔ جبکہ اورنج ٹرین اور میٹرو بس سمیت کئی روٹ بحال کر دیئے گئے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos