حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے رابطہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک لبیک سے وابستہ ساڑھے 4 ہزار افراد کی فہرست تیار ہو چکی ہے اور چھاپے مارے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ 2700 پہلے ہی گرفتار ہیں۔ اہلسنت رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں مساجد اور مدارس کیخلاف کریک ڈاؤن بھی کیا جا رہا ہے۔
تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق غیر معمولی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر، اشتعال انگیزی اور قانون شکنی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پولیس افسران کی شہادت اور عوامی املاک کی تباہی میں ملوث عناصر پر دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے۔
حکومت پنجاب نے طے کیا کہ انتہا پسندی میں ملوث جماعت کی قیادت کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا جائے گا جبکہ ان کی جائیدادیں اور اثاثے محکمہ اوقاف کے حوالے کیے جائیں گے۔ اس جماعت کے بینرز، پوسٹرز اور اشتہارات پر مکمل پابندی ہوگی، ان کے بینک اکاؤنٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی بند کر دیے جائیں گے۔
پنجاب کابینہ کے اس فیصلے سے پہلے ہی ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کردیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کے ذرائع کے مطابق صوبے بھر سے 4500 رہنماؤں و کارکنان کی فہرستیں تیار کی گئیں ہیں۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ساڑھے چار ہزار رہنماؤں اور کارکنوں کی فہرستیں سی سی پی او لاہور سمیت پنجاب کے تمام آر پی اوز کو بھجوا دیں جبکہ تمام افسران کو فوری ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کا حکم دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق لاہور سے ساڑھے 13 سو رہنماؤں اور کارکنوں کی فہرستیں سی سی پی او لاہور، شیخوپورہ ڈویژن سے ساڑھے تین سو کارکنوں اور رہنماؤں کی فہرستیں آر پی او شیخوپورہ کو دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ساہیوال ڈویژن سے 3 سو 30 اور گوجرانوالہ ڈویژن کی 450 سرکردہ رکن کی فہرستیں دی گئی ہیں جبکہ فیصل آباد ریجن کے 430 رہنماؤں اور کارکنوں کی فہرستیں دی گئی ہیں۔ آئی جی پنجاب نے تمام افسران کو ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو جلد گرفتار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ د
ادھر اہلنست کے رہنماؤں کا کہنا کہ حکومت نے تحریک لبیک کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ مساجد اور مدارس کے خلاف بھی اندھا دھند کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
رویتِ ہلال کمیٹی کے سابق سربراہ اور تنظیماتِ اہلسنت ولجماعت کے سربراہ مفتی منیب الرحمٰن نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اس اندھا دھند کار روائی کو فی الفور روکا جائے اور مدارس و مساجد کو معمول کے مطابق اپنا کام کرنے دیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ مرید کے واقعے کے بعد مخصوص لوگوں کی گرفتاریوں کی حکمت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اب اطلاعات آ رہی ہیں کہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور مساجد و مدارس کو سیل کیا جا رہا ہے یا ان کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے رہی ہے۔
’یہ حکمت عملی غیر حکیمانہ اور غیر دانشمندانہ ہے۔‘
مفتی منیب کا مزید کہنا ہے کہ بلاوجہ خدشات کی پیشگی منصوبہ بندی کے طور پر پورے ملک میں خوف و ہراس اور سراسیمگی پیدا کرنا اور مذہبی طبقات میں بلاوجہ اشتعال اور نفرت کے اسباب پیدا کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں۔
اس سے پہلے حامد سید کاظمی اور دیگر اہلسنت رہنماؤں نے ایک اجلاس کے بعد حکومتی کریک ڈاؤں پر تشویش ظاہر کی تھی اور عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس اور گھروں پر چھاپوں سے لوگوں کے دل میں نفرت پیدا ہوگی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos