فائل فوٹو
فائل فوٹو

مضر صحت قرار 200 ٹن چھالیہ نیلام کرنے کی تیاری

عمران خان :
پاکستان میں زہریلی اور مضر صحت چھالیہ کی غیر قانونی درآمد کے اسکینڈل نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ تازہ انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ کسٹمز اور ڈپارٹمنٹ اف پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) کے بعض افسران کی ملی بھگت سے دو سو ٹن سے زائد مضر صحت چھالیہ کو لیبارٹری رپورٹس میں رد و بدل کے ذریعے نیلامی کے قابل ظاہرکرکے انہیں کمپنیوں کو فراہم کرنے کیلئے کرپٹ عناصر سرگرم ہوگئے ہیں۔

ذرائع کے بقول یہ معاملہ صرف کرپشن یا انتظامی غفلت تک محدود نہیں۔ بلکہ ایک منظم نیٹ ورک کے وجود کو ظاہر کرتا ہے، جو عوام کی صحت کے ساتھ کھیل کر کروڑوں روپے کمانے کیلئے سرکاری نظام کو اپنے مقاصد کے تابع کر چکا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق نومبر 2023ء میں میسرز آر اے امپکس کے نام سے انڈونیشیا سے چھالیہ کی ایک بڑی کھیپ کراچی بندرگاہ پر پہنچی۔ ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کی ابتدائی لیبارٹری رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ اس مال میں افلاٹوکسین (Aflatoxin) نامی زہریلے مادے کی مقدار 68 بی پی پی (Parts Per Billion) تک ہے، جو عالمی سطح پر مقررہ معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اصولاً ایسی اشیا کو فوراً تلف کر دیا جاتا ہے۔ لیکن چند روز بعد اسی رپورٹ میں پراسرار تبدیلی کے بعد افلاٹوکسین کی سطح صرف 18 بی پی پی ظاہر کر دی گئی۔ جب کسٹمز انٹیلی جنس کو اس ہیرا پھیری کا علم ہوا تو اس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے پوری کنسائنمنٹ بلاک کر دی۔ مگر حیرت انگیز طور پر چھ ماہ گزرنے کے باوجود یہ زہریلا مال بندرگاہ پر ہی پڑا رہا اور اسے تلف نہیں کیا گیا۔

اس دوران کمپنی کے ایک ملازم ارشد کو ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ سیل نے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کمپنی کے مالکان نے نہ صرف ایف آئی اے اہلکاروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں بلکہ کسٹمز افسران کو بھی دبائو میں لانے کیلئے مختلف ذرائع استعمال کیے۔ کسٹمز انٹیلی جنس نے دبائو کے باوجود قانونی کارروائی جاری رکھی۔ مگر مال تلف نہ ہونے کے سبب معاملہ طویل عرصے تک لٹکا رہا۔

ذرائع کے بقول اس وقت صورتحال ایک نئے موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ کلکٹریٹ آف اپریزمنٹ ویسٹ نے انہی ضبط شدہ کنسائنمنٹس کو ’آکشن‘ کے ذریعے فروخت کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ بظاہر یہ اقدام قانونی کارروائی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن ذرائع کے مطابق اصل مقصد مضر صحت چھالیہ کو کسی ڈمی کمپنی کے ذریعے دوبارہ مارکیٹ میں لانا ہے۔ تحقیقات میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ کراچی کی معروف میٹھی چھالیہ تیار کرنے والی کمپنیوں، جن میں میسرز کرن فوڈز، تلسی اور دیگر شامل ہیں، نے ان ضبط شدہ کنسائنمنٹس کیلئے پہلے ہی کروڑوں روپے ایڈوانس ادائیگیاں کر رکھی تھیں۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ معاملہ صرف ایک درآمد کنندہ یا چند افسران تک محدود نہیں۔ بلکہ ایک ایسا گٹھ جوڑ موجود ہے جس نے اس پورے نظام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ میسرز آر اے امپکس نے اس سے قبل کبھی چھالیہ درآمد نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود بڑی کمپنیوں کا پہلی بار درآمد کرنے والے امپورٹر پر اتنا بڑا اعتماد ظاہر کرنا خود ایک بڑا سوال ہے کہ آیا یہ اعتماد کسی دبائو یا خفیہ سفارش کے نتیجے میں پیدا کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اپریزمنٹ ویسٹ کی ایک خاتون ڈپٹی کلکٹر نے درآمد کنندہ کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے انہی کنٹینرز کے نمونے تیسری مرتبہ ٹیسٹ کیلئے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) بھجوائے۔پہلے مرحلے میں رپورٹ میں دوبارہ افلاٹوکسین کی خطرناک سطح ظاہر ہوئی۔ لیکن کچھ روز بعد رپورٹ کے مندرجات میں تبدیلی کر دی گئی اور مال کو ’قابل استعمال‘ ظاہر کر دیا گیا۔

ذرائع کے بقول کسٹمز محکمے کو خود سیمپل ٹیسٹ کیلئے بھیجنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ یہ ذمہ داری صرف ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) کے سپرد ہے۔ اس کے باوجود ایک کسٹمز اہلکار نے خود کوریئر کے ذریعے سیمپل بھیجا اور ٹیسٹنگ فیس کے طور پر بیس ہزار روپے کی رقم درآمد کنندہ نے سونیری بینک شارع فیصل برانچ سے چیک کے ذریعے ادا کی۔ یہ لین دین اس ملی بھگت کی تصدیق کرتا ہے، جس کے ذریعے مضر صحت مال کو ’صاف‘ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔

کسٹمز کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ دو برس تک ضبط شدہ چھالیہ کے کنٹینرز بندرگاہ پر موجود رہے۔ نہ انہیں تلف کیا گیا اور نہ کوئی واضح فیصلہ سامنے آیا۔ اب اچانک انہی کنسائنمنٹس کو نیلامی کیلئے تیار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ کسٹمز اور پلانٹ پروٹیکشن کے بعض عناصر اثر و رسوخ کے سامنے یا تو بے بس ہیں یا جان بوجھ کر اس کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ قانون کے مطابق ایسے خوردنی سامان جنہیں دو مرتبہ مضر صحت قرار دیا جا چکا ہو، ان کی نیلامی کسی صورت ممکن نہیں۔ کسٹمز رولز 2001 کے تحت ایسی اشیا کو فوراً تلف کیا جانا لازمی ہے۔ اس کے باوجود نیلامی کے عمل کا آغاز ایک ایسا خطرناک رجحان ہے، جو عوامی صحت کو براہ راست خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس پورے نیٹ ورک میں کچھ ریٹائرڈ سرکاری افسران، کسٹمز و پلانٹ پروٹیکشن کے موجودہ اہلکار اور مقامی مارکیٹ سے وابستہ بڑے سرمایہ کار شامل ہیں۔ یہ گروہ درآمدی دستاویزات سے لے کر لیبارٹری رپورٹس تک سب کچھ اپنے حق میں کروا لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ذرائع نے اس معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ یہ براہ راست شہریوں کی صحت سے جڑا ہے اور اس وقت شہر کے بڑے اسپتالوں میں گٹکا، مین پوری اور ماوا سے ہونے والے منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ چھالیہ میں پایا جانے والا افلاٹوکسین ایسا زہریلا مادہ ہے، جو جگر کے کینسر سمیت کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس چھالیہ کو مارکیٹ میں آنے دیا گیا تو اس کے اثرات برسوں تک انسانی صحت پر رہیں گے۔ان کے مطابق ایسے مواد کی فروخت یا دوبارہ پراسیسنگ دراصل عوامی صحت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نیلامی کا نوٹس تیار کر لیا گیا ہے اور اگر ایف بی آر یا وزارت خزانہ نے بروقت مداخلت نہ کی تو یہ زہریلا مال ’قانونی نیلامی‘ کے نام پر چند ہفتوں میں مارکیٹ میں واپس پہنچ سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوامی صحت بلکہ کسٹمز نظام کی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ یہ معاملہ دراصل پاکستان کے درآمدی نظام میں شفافیت کے بحران کو ظاہر کرتا ہے۔

چند افسران نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نہ صرف قانون کو پامال کیا۔ بلکہ عوامی مفاد کو بھی نقصان پہنچایا۔ اگر اس سازش کے ذمہ دار عناصر کے خلاف فوری عدالتی تحقیقات نہ ہوئیں تو یہ کیس مستقبل میں بدعنوانی کے لیے ایک مثال بن جائے گا۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ مضر صحت چھالیہ کی نیلامی کا منصوبہ اگر روکا نہ گیا تو یہ صرف ایک مالی اسکینڈل نہیں، بلکہ انسانی صحت کے خلاف جرم ثابت ہوگا۔ ایک ایسا جرم جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔