عمران خان:
ایف بی آر اور کسٹمز کے اندر جاری کرپشن، نااہلی اور بدانتظامی کے خلاف وفاقی حکومت نے سخت کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ متعدد افسران کو بڑے جرائم اور غفلت پر سزائیں دی گئی ہیں جن میں برطرفی، تنزلی اور انکریمنٹ روکنے جیسے بڑے فیصلے شامل ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے ملنے والی معلومات کے مطابق کسٹمز اور ایف بی آر کے اندر چھپی نااہلی، مالی بے ضابطگیوں اور اندرونی ملی بھگت کے خلاف حکومت نے بڑی صفائی مہم شروع کر دی ہے، جس میں سینئر سے لے کر مڈل لیول افسران تک کوئی محفوظ نہیں رہا۔ اس ضمن میں 15 اکتوبر 2025ء کو جاری ہونے والے ایف بی آر کے سرکاری نوٹی فکیشنز نے ادارے کے اندرونِ خانہ بدعنوانی کی ہولناک تصویر واضح کر دی ہے۔ ان دستاویزات کے مطابق صرف کراچی کے مختلف کلکٹریٹس میں تعینات تین افسران کو سنگین بددیانتی، غفلت اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات پر سخت سزائیں دی گئیں۔ ان میں ایک افسر کو برطرف، ایک کو تنزلی اور ایک کو مالی جرمانے کے ساتھ سرکاری ریکارڈ پر نااہل قرار دیا گیا۔ یہ کارروائیاں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب ایف بی آر پر عوامی اعتماد تقریباً ختم ہو چکا ہے اور پاکستان کے ٹیکس نظام میں شفافیت کی بحالی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ کراچی کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (کسٹمز) کے انٹیلی جنس آفیسر جہانزیب خان نے ایک ضبط شدہ بس کی رہائی میں 35 دن کی غیرقانونی تاخیر کی۔ یہ تاخیر اس وقت کی گئی جب مالک نے پہلے ہی چار کروڑ چالیس لاکھ روپے جرمانہ اور پچاس ہزار روپے ذاتی پینلٹی ادا کر دی تھی۔ جب معاملہ منظرِ عام پر آیا تو یہ بھی انکشاف ہوا کہ افسر نے اپنے افسران بالا کو کسی قسم کی تحریری اطلاع یا وضاحت نہیں دی تھی۔
تحقیقات کے دوران رشوت طلب کرنے کی شکایت سامنے آئی، جس کے بعد محکمانہ کمیٹی نے معاملے کا ازسرِنو جائزہ لیا۔ ابتدائی انکوائری افسر نے معمولی سزا تجویز کی، مگر ممبر ایڈمنسٹریشن نے جرم کی سنگینی دیکھتے ہوئے جہانزیب خان کو تین سال کے لیے نچلے عہدے (BS-16 سے BS-13) پر تنزلی کی سزا دی۔ ساتھ ہی ان کی کارکردگی الائونس ایک سال کے لیے بند کر دی گئی۔ ایف بی آر کے مطابق یہ فیصلہ ’’غیرقانونی تاخیر‘‘ اور ’’بدنیتی پر مبنی رویے‘‘ کے باعث کیا گیا۔
اسی روز جاری ہونے والے ایک اور نوٹیفکیشن میں اپریزننگ آفیسر فصیح الدین کے خلاف کارروائی مکمل کی گئی، جو کراچی کے کلکٹریٹ آف کسٹمز اپریزمنٹ (ویسٹ) میں تعینات تھے۔ فصیح الدین پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک درآمدی کنسائنمنٹ کے معائنے کے دوران سامان کی مقدار اور نوعیت میں غلط اندراج کیا، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 13 لاکھ 60 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
انکوائری رپورٹ میں یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر بعد میں دوبارہ جانچ نہ ہوتی تو یہ رقم ہمیشہ کے لیے سرکاری خزانے سے غائب رہتی۔ سماعت کے دوران افسر نے اعتراف کیا کہ غلطی ’’کام کے دبائو اور اسٹاف کی کمی‘‘ کے باعث ہوئی۔ تاہم ایف بی آر نے اس وضاحت کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے انہیں سینچر اور ایک سال کے لیے انکریمنٹ روکنے کی سزا دی۔ ان کی معطلی ختم کر کے انہیں دوبارہ ملازمت پر تو بحال کر دیا گیا، مگر چھ ماہ کے لیے کارکردگی الائونس منسوخ کر دیا گیا تاکہ ’’پیشہ ورانہ لاپرواہی‘‘ کی قیمت ادا کرنی پڑے۔
تیسرا اور سب سے سنگین مقدمہ کسٹمز انفورسمنٹ کراچی کے پریوینٹیو آفیسر دانش رفیق کا سامنے آیا، جن پر الزام تھا کہ وہ ایک ضبط شدہ ٹویوٹا پریوس (SPF-751) کی چوری کے وقت ڈیوٹی پر موجود تھے۔ یہ گاڑی 19 جنوری 2025ء کو ضبط کی گئی تھی اور 31 مارچ کی رات ASO ہیڈکوارٹر سے چوری ہو گئی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ دانش رفیق چوری کے وقت ڈیوٹی پر موجود تھے، مگر انہوں نے سیکورٹی کے ناقص انتظامات کو درست نہیں کیا۔
دورانِ سماعت افسر نے موقف اختیار کیا کہ وہ ’’چاند رات‘‘ کے موقع پر ہتھیاروں کی نگرانی میں مصروف تھے، مگر ایف بی آر نے اس وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اسے سنگین غفلت قرار دیا۔ نتیجتاً دانش رفیق کو فوری طور پر برطرف کر دیا گیا اور ان کا پورا معطلی کا عرصہ چھٹی (Leave) تصور کیا گیا۔
یہ تینوں فیصلے ایف بی آر کے لیے محض انفرادی سزائیں نہیں بلکہ ادارہ جاتی پیغام ہیں کہ ’’نہ نرمی، نہ رعایت‘‘ کی پالیسی اب نافذ العمل ہے۔ ایف بی آر کے اندرونی ذرائع کے مطابق رواں سال کے صرف نو مہینوں میں 187 افسران کے خلاف محکمانہ کارروائیاں کی گئیں، جن میں 36 کو برطرف، 52 کی تنزلی، اور 79 کو معمولی سزائیں دی گئیں۔ زیادہ تر کیسز کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے کلکٹریٹس اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹس سے سامنے آئے ہیں، جہاں ماضی میں رشوت ستانی اور اثر و رسوخ کے جال مضبوط ہو چکے تھے۔
اس ضمن میں ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ایف بی آر میں اندرونی احتساب کو سیاسی اثر و رسوخ سے بالاتر ہو کر نافذ کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول اب معمولی بدعنوانی، غیرضروری تاخیر یا غلط کلیئرنس بھی سزا کے زمرے میں آ رہی ہے۔
ذرائع کے بقول کہ اگرچہ یہ اقدامات درست سمت میں ہیں، لیکن ایف بی آر کی ساختی خامیوں کو دور کیے بغیر دیرپا اصلاح ممکن نہیں۔ ادارے میں تعیناتیوں کا نظام، تبادلے اور اختیارات کی تقسیم تاحال غیرشفاف ہے۔ کئی افسران برسوں سے ایک ہی شہر یا بندرگاہ پر تعینات ہیں، جس سے ذاتی مفادات کے جال مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے کسٹمز نظام میں غیر رسمی ادائیگیوں یا رشوت کی شرح 27 فیصد تک ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے اسی پس منظر میں ایف بی آر میں ڈیجیٹل ڈسپلن مانیٹرنگ سسٹم (DDMS) کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت ہر افسر کا انکوائری ریکارڈ، سزا اور کارکردگی کا مکمل ڈیٹا آن لائن دستیاب ہوگا۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ کسی سزا یافتہ افسر کو بغیر ازسرنو اہلیت ثابت کیے دوبارہ مراعات نہ مل سکیں۔ ریونیو افسران کے مطابق ایف بی آر میں جاری یہ مہم صرف احتساب نہیں بلکہ ادارے کی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ہے۔ ایک ریٹائرڈ ممبر کسٹمز کے بقولیہ درست سمت کا پہلا قدم ہے، لیکن جب تک تبادلوں میں شفافیت اور سیاسی اثر ختم نہیں ہوتا، یہ جنگ ادھوری رہے گی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos