فائل فوٹو
فائل فوٹو

مفتیان کرام نے مشروط حلالہ ناجائز قرار دیدیا

محمد اطہر فاروقی:
کراچی سمیت ملک بھر میں مشروط حلالہ کیلئے سینٹرز بنائے گئے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر کا عمل بھی مسلسل جاری ہے۔ فون کالز پر لوگوں کے نام صیغہ راز میں رکھنے کا وعدہ کرکے حلالہ سینٹرز چلائے جا رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے اس حوالے سے مفتیان کرام سے بات چیت کی تو انہوں نے مشروط حلالہ کو ناجائز قرار دیا اور کہا کہ حلالہ سینٹر کا قیام یا اس کو کاروبار بنانا بھی حرام ہے۔

حلالہ کے حوالے سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے جاری فتویٰ نمبر 143909200309 میں ایک سائل نے سوال کیا کہ ’’کیا حلالہ اسلام میں جائز ہے؟۔ حلالہ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟‘‘۔ فتویٰ کے جواب میں کہا گیا ’’اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرائے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے گا، تو ایسا کرنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ عورت کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے، نکاح کے بعد دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے اور اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اسے اتفاقی طور پر طلاق دے دے تو وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی‘‘۔

بنوری ٹائون کے فاضل ریاض مسجد (رائل آئکون) گلشن اقبال کے امام و خطیب مفتی احسان اللہ حسن نے بتایا کہ حلالہ سینٹر اور مشروط طریقے سے حلالہ کو کمائی کا ذریعہ بنانا، شریعت کی روح سے لعنت کے مستحق اعمال ہیں۔ باقاعدہ اس طرح کے سینٹرز چلانا حرام فعل ہے۔ حلالہ کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’سب سے پہلی بات لفظ ’حلالہ‘ ہے، جو کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے۔ شریعت میں اس طرح کی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی۔ عرف عام میں حلالہ اس کو کہتے ہیں کہ جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس کے بعد اس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔

اگر وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کر لے اور ازدواجی تعلق بھی قائم کرلے، پھر اس کے بعد شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اتفاقی طور پر طلاق دے دے تو طلاق اور انتقال کی عدت گزارنے کے بعد وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔ اسی کو عرف عام میں حلالہ کہا جاتا ہے۔ لیکن شریعت میں مذکورہ معاملہ بغیر شرط کے اتفاقیہ طور پر ہو جائے تو وہ خاتون اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔ تاہم طلاق کی شرط کے ساتھ حلالہ کی غرض سے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ حدیث مبارکہ میں مشروط حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت کی گئی ہے‘‘۔

مدرسہ الحرمین کے مہتمم مفتی طلحہ عتیق نے بتایا کہ حلالہ اتفاقی صورت کو کہا جاتا ہے۔ یعنی کوئی ایسی خاتون جس کو تین طلاقیں ہو چکی ہیں۔ قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 230 میں اللہ پاک نے فرمایا ہے (ترجمہ) ’’یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے شادی کرلیں’ اور پھر اتفاقی طور پر اسے طلاق ہوجائے‘‘۔ یہ ایک اتفاقی صورت ہے۔ اور اسی صورت میں ہی خاتون اپنے سابقہ شوہر کی طرف دوبارہ رجوع کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ‘حلالہ کرنے والے پر اور حلالہ کروانے والے پر اللہ رب العالمین کی لعنت ہوتی ہے۔ لیکن اب ایسے افراد یا فرد آپس میں بیٹھ کر معاملہ طے کرتے ہیں اور حلالہ کرتے ہیں یا اس کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے تو اس حدیث کی روشنی میں ایسے معاملات طے کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے اور اس میں ملوث ہونے والے ہر فرد کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اس کو کاروبار بنانا ناجائز اور حرام کام میں تصور ہوگا۔ اس لئے شریعت نے اس معاملے کو بڑی سختی سے لیا ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ خاتون کے لیے حلالہ کی اتنی مشکل صورت اس لئے رکھی گئی ہے کہ وہ ایسے شوہر کی طرف دوبارہ نہ جائے۔ شریرت کسی طور پر بھی یہ بات نہیں چا ہ رہی کہ ایسا شخص جس نے زندگی کے سارے تعلق کو ایک طرف رکھ کر ایک ہی مرتبہ میں تین طلاقیں دے دیں، گویا شریعت کی نظر میں بھی اتنا غیر سنجیدہ فرد اس عورت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ شریعت نے خواتین کے حقوق کو سامنے رکھا ہے۔ یہ ایک بڑی حکمت ہے کہ شریعت نے اس کے لیے اتنا مشکل پروسس رکھا ہے کہ عام طور پر کوئی بھی اس کو پسند نہیں کرتا۔