فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلدیاتی الیکشن سے ٹی ایل پی کے باہر ہونے کا امکان

نواز طاہر:
پنجاب حکومت کی جانب سے وفاق کو بھیجی گئی ٹی ایل پر پابندی لگانے کی سفارشات پر پیش رفت جاری ہے اور امکان ہے کہ ٹی ایل پی بلدیاتی الیکشن سے باہر ہو جائے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت اور ریاستی اداروں نے ٹی ایل پی کے بارے میں مزید شواہد اکٹھے کرلیے ہیں اور یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ جبکہ پہلے سے حاصل شدہ شواہد حکومت کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹی ایل پی کے کچھ بڑے سہولت کار بھی منظرِ عام پر لائے جانے والے ہیں۔ جس کا اشارہ صوبائی حکومت کی طرف سے دیدیا گیا ہے۔

منگل کو پنجاب حکومت کی ترجمان صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کی پریس کانفرنس کو بھی پیش رفت اور زمین ہموار کرنے کی کڑی قرار دیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹی ایل پی کے بارے میں میڈیا پر فراہم کی جانے والی معلومات کے بعد اس کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم کمزور پڑی ہے اور اس کی تقلید کرنے والوں کے متنفر ہونے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔ جن میں شہروں سے زیادہ دیہی علاقے شامل ہیں۔ جہاں ٹی ایل پی کی فالونگ سب سے زیادہ تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ مریدکے میں انتہا پسندانہ اقدامات اٹھانے والوں کو کیمروں کے ذریعے شناخت کرکے گرفتاریاں شروع کر دی گئی تھیں۔ تاہم بچ جانے والے کچھ شرپسندوں کے خیبرپختون اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں منتقل ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ پنجاب حکومت کی ترجمان نے ایک بار پھر متنبہ کیا ہے کہ ٹی ایل پی کی مالی مدد (سہولت کاری) کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج ہوں گے۔ ان میں سے اب تک شناخت ہونے والوں کی تعداد اڑتیس ہزار بتائی گئی ہے اور انکشاف کیا گیا ہے کہ ان سہولت کاروں میں بڑے بڑے نام اور پڑھے لکھے لوگ بھی شامل تھے۔

اسی طرح انہوں نے بتایا ہے کہ ٹی ایل پی کے امیر کے گھر سے برآمد ہونے والے قیمتی سامان میں تقریباً دو کلو گرام سونا، پون کلو گرام سے زائد چاندی، انہتر قیمتی (برانڈڈ) گھڑیاں، چاندی کے تاج اور انگوٹھیوں کے علاوہ پچاس ہزار روپے بھارتی کرنسی بھی برآمد ہوئی ہے۔ جبکہ حافظ سعد رضوی کے اکیانوے اکائونٹ بھی منجمد کیے جاچکے ہیں۔ صوبائی ترجمان نے سوشل میڈیا کی مہم کا جواب دیتے ہوئے بتایا ہے کہ نہ تو کوئی مسجد شہید کی جارہی ہے اور نہ ہی ٹی ایل پی کے بانی کی قبر کہیں اور منتقل کی جارہی ہے۔ البتہ اشتعال انگیزی کیلئے مجمع اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ٹی ایل پی کے زیر انتظام تین سو مساجد کا انتظام سرکار نے خود سنبھال لیا ہے۔ ٹی ایل پی کے دو سو تئیس مدارس کی جیو ٹیگنگ مکمل ہوچکی ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات میں حکومت کو کسی جانب سے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ بلکہ مختلف ذرائع سے اس کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ جس میں مذہبی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جبکہ ان مذہبی تنظیموں نے ابتدائی طور پر حالات کی خرابی، امن و امان کی صورتحال پیدا ہونے، انسانی جانوں کے ضیاع کی مذمت کی تھی اور یومِ سوگ منایا تھا۔ جسے مذہبی حوالے سے فیس سیونگ کا نام دیا گیا ہے اور پنجاب حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے کچھ ادارے علمائے کرام کی زیر نگرانی چلائے جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق مرحلہ وار اور بتدریج تمام مساجد اور ادارے حکومت کی نگرانی میں لائے جائیں گے۔ دریں اثنا ٹی ایل پی کے رکن پنجاب اسمبلی محمود احمد جو کچھ دنوں سے شدید علیل ہیں، کا ’’امت‘‘ کے استفسار پر برقی پیغام موصول ہوا ہے۔ جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر میری پارٹی بین ہوجاتی ہے تو مجھے موقع دیا جائے گا کہ آپ کوئی سی پارٹی جوائن کرلیں۔ وہ ٹائم دیتے ہیں پندرہ دن کا یا کسی بھی مدت کا تو مجھے کوئی پارٹی جوائن کرنا پڑے گی۔ باقی اللہ رحم کرے اور سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے‘‘۔