فائل فوٹو
فائل فوٹو

26ویں ترمیم کیس: کان اور آنکھیں بند کرکے کسی کو ریلیف نہیں دے سکتے، جج سپریم کورٹ

اسلام آباد: 26ویں آئینی ترمیم  سے متعلق جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے کہ سب وکلا فل کورٹ مانگ رہے ہیں مگرطریقہ کارکوئی نہیں بتارہا جب کہ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے ہم کان اور آنکھیں بند کرکے کسی کو ریلیف نہیں دے سکتے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کے وکیل خواجہ احمد احسن نے دلائل میں استدعا کی کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے والا سولہ رکنی فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگربنچ کیس سن نہیں سکتا توآرڈرکیسے دے سکتا ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 191 اے میں کوئی قدغن نہیں ہے، یہ پروسیجرل آرٹیکلزہیں یہ آرٹیکل بینچز پر تو قدغن لگاتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ پرنہیں، ہم ان آرٹیکلزکوایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ آرٹیکل مکمل طورپرقدغن لگاتے ہیں۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ آپ اپنی درخواست کے ذریعے مرکزی ریلیف مانگ رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ وکلا فل کورٹ سب مانگ رہے ہیں مگرطریقہ کارکوئی نہیں بتا رہا، بنچ میں مزیدججزشامل کرنے کا اختیارسپریم جوڈیشل کمیشن کے پاس ہے، ہم ججزشامل نہیں کرسکتے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے تاثر دیا جا رہا ہے ہم الگ ججز اور دوسرے والے الگ ججز ہیں، تمام ججز کو تسلیم کرنا پڑے گا، سپریم کورٹ کے ججز کا کام آئین کا تحفظ کرنا، آئین کا دفاع کرنا اور آئین کی تشریح کرنا ہے۔