عمران خان:
پاکستان میں آن لائن جوا، سٹے بازی اور غیر قانونی ڈیجیٹل سرگرمیوں کے خلاف شروع کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی نے ایک غیر متوقع اور سنسنی خیز موڑ لے لیا ہے۔ باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ این سی سی آئی اے میں رشوت خور نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لئے حساس ادارہ متحرک ہوگیا ہے۔ اب تک نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے پانچ اعلیٰ ڈائریکٹرز مزید تفتیش کے لئے حراست میں لے لئے گئے ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے مشہور یوٹیوبر سعد الرحمٰن المعروف ڈکی بھائی کے اہلِ خانہ سے ڈیڑھ کروڑ روپے رشوت طلب کی تھی تاکہ ان کے خلاف تحقیقات میں نرمی برتی جائے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں وہ افسر بھی شامل ہیں جو ڈکی بھائی کے خلاف کیس کی براہِ راست تفتیشی ٹیم کا حصہ تھے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق آن لائن جوئے اور سٹے کی پروموشن میں ملوث یو ٹیوبرز ، ٹک ٹاکرز کے علاوہ غیر قانونی کال سینٹرز اور دیگر قسم کے جرائم میں ملوث ملزمان کو ریلیف دینے اور اور ان کی سرپرستی کرکے کروڑوں روپے کی ماہانہ رشت جمع کرنے والے این سی سی آئی اے کے نیٹ ورک کے حوالے سے حساس ادارے کو مسلسل رپورٹس مل رہی تھیں جس کے بعد اعلیٰ حکام کی منظوری کے بعد ایسے کرپٹ عناصر کو مختلف دفاتر سے حراست میں لئے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اب تک 15سے زائد افسران اور اہلکار اٹھائے جا چکے ہیں جن سے پوچھ گچھ کے بعد 5 افسران کو باقاعدہ حراست میں لے لیا گیا۔ سب سے زیادہ کرپٹ عناصر این سی سی آئی اے کے لاہور کے دفتر میں پائے گئے جہاں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورا دفتر ہی غیر فعال ہے اور بہت سے افسران یا تو زیر حراست میں ہیں یا پھر انہوں نے چھٹیاں لے لی ہیں۔ جبکہ کئی افسر بغیر بتائے ہی ڈیوٹیوں سے غائب ہوگئے ہیں۔
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق ڈکی کیس کے مرکزی تفتیشی افسر شعیب ریاض پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈکی کے وکیل کے ذریعے ان کی فیملی سے بھاری رقم طلب کی۔ معاملہ اْس وقت سنگین صورت اختیار کرگیا جب ملٹری انٹیلی جنس نے خفیہ نگرانی کے دوران ٹیلی فونک شواہد اور پیغامات اکٹھے کیے جن سے رشوت طلبی کے ناقابلِ تردید شواہد ملے۔ ان شواہد کی بنیاد پر ایم آئی نے اچانک چھاپہ مار کر پانچوں افسران کو حراست میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق، کارروائی وزیراعظم آفس کے براہِ راست احکامات پر عمل میں لائی گئی تاکہ سائبر کرائم ایجنسی کے اندر بڑھتی بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے۔
ذرائع کے بقول یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ڈکی اور اس کی اہلیہ عروب جتوئی کے خلاف غیر قانونی بیٹنگ ایپس کی تشہیر کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ این سی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق، ڈکی بھائی پر الزام ہے کہ انہوں نے 1xBet، Bet365، Betway اور دیگر جوئے کی ایپس کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ ان کے سفیر کے طور پر لاکھوں نوجوانوں تک ان ایپس کی رسائی ممکن بنائی۔ تحقیقات میں ڈکی کے دو بینک اکائونٹس سے 21 کروڑ روپے اور کرپٹو والٹس سے تین لاکھ 26 ہزار امریکی ڈالر برآمد ہوئے، جو اب کیس پراپرٹی کے طور پر ضبط کرلیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ڈکی نے اپنے جسمانی ریمانڈ کے دوران آن لائن جوئے کی تشہیر میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔چالان میں ڈکی، اس کی اہلیہ عروب جتوئی اور منیجر سبحان کو مرکزی ملزمان قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ یوٹیوبر اقرا کنول کے شوہر کو مفرور نامزد کیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں ڈکی بھائی کو سات سال قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
تحقیقات کے دوران ایک اور غیر متوقع موڑ اس وقت آیا جب این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کو اچانک ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ وہی افسر تھے جنہوں نے ڈکی کیس کی بنیاد رکھی تھی اور مالیاتی شواہد اکٹھے کیے تھے۔ ان کی سربراہی میں کیس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اور دیگر یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کے خلاف بھی تحقیقات کا دائرہ بڑھایا جا رہا تھا۔ تاہم ان کی اچانک تبدیلی نے تحقیقات کے تسلسل پر سوالات کھڑے کر دیئے۔
ذرائع کے مطابق، نیا ایڈیشنل ڈائریکٹر تاحال تعینات نہیں کیا گیا جس کے باعث کیس کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ اگر تحقیقات میں تاخیر ہوئی تو ملزمان کو عدالت میں وقتی ریلیف ملنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ جبکہ تفتیشی تسلسل متاثر ہونے سے دفاعی وکلا عدالت میں انتظامی کمزوری کو بطور دلیل پیش کر سکتے ہیں۔ کسی بڑے یوٹیوبر کے خلاف کارروائی میں سیاسی یا سماجی دبائو بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔
این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ارسلان منظور کے مطابق سال 2025ء کے دوران پاکستان میں سائبر جرائم میں تقریباً 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف کراچی میں رواں سال 29 ہزار سے زائد شہریوں نے سائبر کرائم کی شکایات درج کرائیں جن میں سے تقریباً نصف مالی دھوکہ دہی اور آن لائن فراڈ سے متعلق تھیں۔ ارسلان منظور کے مطابق سب سے زیادہ کیسز جنوبی پنجاب کے علاقوں سے رپورٹ ہوئے، جو اب ڈیجیٹل فراڈ کے نیا مرکز بن چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان اس وقت گلوبل سائبر سیکیورٹی انڈیکس میں 46 ویں نمبر پر ہے، تاہم عوامی سطح پر ڈیجیٹل لٹریسی کی کمی کے باعث جرائم کی روک تھام ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ادھر ویزا کی 2024ء رپورٹ کے مطابق ہر دو میں سے ایک پاکستانی کسی نہ کسی شکل میں ڈیجیٹل فراڈ یا آن لائن اسکیم کا شکار ہوا۔
ان فراڈز میں اب مصنوعی ذہانت پر مبنی آوازوں اور ڈیپ فیک ویڈیوز کے ذریعے دھوکہ دہی کے واقعات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس ضمن میںمیں حساس ادارے کی تازہ کارروائی نے جہاں سائبر کرائم ایجنسی کے اندر بدعنوانی اور اقربا پروری کے کلچر کو بے نقاب کیا ہے، وہیں ادارے کی ساکھ پر بھی سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اس کیس کو مثالی انجام تک نہیں پہنچایا تو یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے، طاقتور کے لیے نہیں۔ تحقیقاتی ذرائع کا کہنا ہے کہ این سی سی آئی اے نے اس کیس کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے دیگر مشہور یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور آن لائن انفلوئنسرز کے خلاف بھی تحقیقات شروع کی تھیں، جو جوئے اور غیر قانونی ایپس کی تشہیر میں ملوث پائے گئے۔ تاہم افسران کی تبدیلی اور ادارے کے اندر پیدا ہونے والی بے یقینی کے باعث اب یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ ان تحقیقات کو یا تو جان بوجھ کر سست کیا جائے گا یا دبائو کے باعث روک دیا جائے گا۔
ذرائع کے بقول ڈکی اسکینڈل اب محض ایک فرد کا معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان میں ڈیجیٹل احتساب، قانون کے نفاذ اور ادارہ جاتی دیانتداری کا ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔ اگر حکومت اور تفتیشی ادارے اس کیس کو شفاف انداز میں منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے تو یہ نہ صرف ڈیجیٹل فریم ورک پر عوامی اعتماد کو مجروح کرے گا بلکہ ہزاروں نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ غلط تاثر بھی پیدا کرے گا کہ قانون سے بچ نکلنا ممکن ہے۔ ایک اعلیٰ حکومتی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر یہ کیس اپنی رفتار کھو بیٹھا تو یہ صرف ایک اسکینڈل نہیں رہے گا بلکہ اداروں کی ساکھ اور حکومت کی دیانت داری پر سوالیہ نشان بن جائے گا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ڈکی بھائی اور ان کی ٹیم کے خلاف کارروائی نے ایک وقت میں عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ حکومت اب ڈیجیٹل جرائم کے خلاف سنجیدہ ہے، مگر اب افسران کی گرفتاری، رشوت اسکینڈل اور اچانک تبادلوں نے اس یقین کو متزلزل کر دیا ہے۔ یہ معاملہ اب صرف ایک مقدمہ نہیں بلکہ پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کی شفافیت کا امتحان بن چکا ہے۔ اگر حکومت نے اس کیس کو شفاف، غیر جانبدار اور موثر انداز میں انجام تک پہنچایا تو یہ ملک میں ڈیجیٹل احتساب کا نیا باب کھول سکتا ہے ورنہ یہ تاثر مزید گہرا ہوگا کہ پاکستان میں قانون کمزور کے لیے سخت اور طاقتور کے لیے نرم ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos