نمائندہ امت :
صوبہ خیبرپختون کے ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں ہونے والے کرکٹ میچ میں ٹی ٹی پی کے مقامی کمانڈر الیاس کی ساتھیوں سمیت اچانک شرکت نے صوبائی حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کمانڈر الیاس کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور اس پر عوام کی جانب سے صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، وہیں اس واقعے کو سیکورٹی اداروں کیخلاف ایک سازش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ دنوں خیبرپختون کے ضلع خیبر میں مقامی کرکٹ ٹیموں کے درمیان باڑہ میں فائنل میچ تھا اور میچ کے مہمان خصوصی جے یو آئی باڑہ کے امیر تھے۔ تاہم جونہی میچ کے اختتام کے بعد فائنل کی تقریب میں ٹرافیاں دینے کا اعلان ہوا تو ٹی ٹی پی کے مقامی کمانڈر الیاس نے اپنے ساتھیوں سمیت اسٹیج پر قبضہ کرلیا اور ٹرافیاں بھی تقسیم کیں۔ تاہم تقریب بدمزگی کا شکار رہی اور تماشائی اور کھلاڑی خاموشی سے تقریب میں بیٹھے رہے۔
اس دوران ٹی ٹی پی کے کمانڈر نے عوام سے درخواست کی کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور اس کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت موقع سے چلے گئے۔ واقعہ کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مقامی آبادی اور لوگوں نے خیبرپختون حکومت پر شدید تنقید شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے پولیس نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسے تقریب کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور مقامی علما ہی اس تقریب کا حصہ تھے۔ جونہی طالبان کمانڈر کی اطلاع پولیس کو پہنچی تو سی ٹی ڈی اور پولیس کے اہلکار تقریب میں پہنچ گئے۔ تاہم اس سے قبل ہی ٹی ٹی پی کمانڈر موقع سے فرار ہو چکے تھے۔
مقامی علما اور کرکٹ کی انتظامیہ کو کہہ دیا گیا ہے کہ انہیں پولیس کو تقریب کی اطلاع دینی چاہیے تھی۔ دوسری جانب جے یو آئی کے سوشل میڈیا انچارج اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی ضیاء الرحمان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’اس تقریب کے مہمان خصوصی جے یو آئی باڑہ کے امیر تھے۔ ٹی ٹی پی کے کمانڈر نے تقریب پر بزور بندوق قبضہ کر کے صرف تین سے چار منٹ تک قیام کیا۔ تاہم ٹی ٹی پی نے جو کام کرنا تھا، وہ کر دیا کہ لوگوں کو اپنی موجودگی ظاہر کی۔ لیکن وزیراعلیٰ کے گھر کے قریب اور پشاور کے پوش علاقے حیات آباد سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ٹی ٹی پی کے کمانڈر کا دن دیہاڑے اس طرح گھومنا صوبائی حکومت کی نا اہلی ہے۔
موجودہ وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے انتظامیہ سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ کیونکہ وزیراعلیٰ کے گھر کے قریب یہ تقریب منعقد ہوئی تھی اور اس کی ساری ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے‘‘۔ دوسری جانب سیکورٹی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مقامی افراد سے اس حوالے سے معلومات حاصل کی گئی ہیں اور کمانڈر کی تلاش جاری ہے۔ اگر عوام تعاون کریں تو ٹی ٹی پی کے شدت پسند کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے۔
اے این پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ باڑہ کے کرکٹ میچ میں ٹی ٹی پی کمانڈر کی آمد ایک منصوبے کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد وفاقی اداروں اور صوبائی سیکورٹی اداروں کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی کے لوگ قبائلی علاقوں سے لے کر چارسدہ تک اور کرک میں جلسے کر رہے ہیں۔ ان کو کچھ نہیں کہا جارہا۔ جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو حملوں کے خدشات ہیں۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ پہلے صوبے میں امن و امان کے قیام کیلئے سیکورٹی اداروں اور پولیس
کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملی طے کریں۔ لیکن عوام کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ امن و امان کا مسئلہ وفاقی حکومت اور وفاقی سیکورٹی اداروں کا ہے۔ حالانکہ اے این پی اور فوج نے مل کر سوات سمیت پورے صوبے سے شدت پسندوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔ لیکن پھر پی ٹی آئی کو مسلط کر کے امن و امان کو خراب کر دیا گیا۔
دوسری جانب افغان حکوم کے حمایت یافتہ سوشل میڈیا نے اس واقعہ کو پاکستانی اداروں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا ہے کہ ٹی ٹی پی خیبرپختون کے علاقوں میں موجود ہے اور افغانستان میں اس کی موجودگی نہیں۔ ٹی ٹی پی کے کمانڈرز کی پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجودگی اور اس کی ویڈیو بنانا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ کیونکہ دشوار سرحدی راستوں سے آکر ویڈیو بنا کر دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں ہے اور یہ پاکستان کے اندر موجود ہیں۔ سیکورٹی اداروں کے مطابق ویڈیو کے بعد ٹی ٹی پی کے کمانڈر سرحد پار چلے جاتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ سرحد پار سے ان کی حمایت ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos