امت رپورٹ:
پاکستان اور طالبان رجیم کے مابین 6 نومبر کو استنبول میں شیڈول مذاکرات کی کامیابی کو لے کر بے یقینی کے سائے منڈ لارہے ہیں۔ اس کا سبب بے اعتمادی اور الزامات لگانے کا تسلسل ہے۔ اگر مذاکرات کے گزشتہ دور کے اختتام پر جاری تحریری اعلامیہ میں ایک شق یہ بھی ڈال دی جاتی کہ اس ایک ہفتے کے وقفے کے دوران زبان بندی یقینی بنائی جائے گی تو شاید صورت حال زیادہ حوصلہ افزا ہوتی۔
ہفتے کے روز افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دو نئے الزامات لگاکر ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا۔ موصوف کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ مذکرات کے ادوار میں افغانستان نے پاکستان کو مطلوب افراد ڈی پورٹ کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن انکار کردیا گیا۔ اس پر وزارتِ اطلاعات و نشریات نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے طالبان ترجمان کے بیان کو گمراہ کن قرار دیا اور کہا کہ استنبول مذاکرات سے متعلق حقائق کو افغان ترجمان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ پاکستان نے افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
افغان فریق کے دعوے پر پاکستان نے فوری طور پر تحویل کی پیشکش کی۔ تاہم واضح کیا کہ دہشت گردوں کی حوالگی سرحدی انٹری پوائنٹس سے ممکن ہے۔ پاکستان کا مؤقف واضح، مستقل اور ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس الزام اور اس کے جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان نے بغیر کسی ریکارڈ کے دہشت گردوں کو سرحد پار دھکیلنے کی آفر کی ہوگی۔ جو ظاہر ہے کہ قابل قبول نہیں۔ دہشت گردوں کی حوالگی سرحدی انٹری پوائنٹس سے ہی ممکن ہے، تاکہ ریکارڈ میں آسکے۔
طالبان ترجمان نے ایک اور الزام یہ لگایا کہ پاکستانی افواج افغانستان میں کشیدگی پیدا کرنے اور فضائی حملے کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، تاکہ امریکہ کی بگرام ایئر بیس پر واپسی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ روس اور چین سمیت پاکستان بھی یہ نہیں چاہتا کہ بگرام ایئربیس دوباہ امریکہ کے پاس جائے۔ کیونکہ یہ ان تینوں ممالک سمیت خطے کے بعض دیگر ممالک کے بھی مفاد میں نہیں۔ ہاں البتہ بھارت ضرور پاکستان مخالف سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے کے لیے بگرام ائیر بیس اپنے استعمال میں لانا چاہتا ہے۔
طالبان ترجمان کے الزامات کو صرف پاکستانی وزارت اطلاعات و نشریات نے ہی سختی سے مسترد نہیں کیا، بلکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی انتہائی سخت ردعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا ’’افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی سیکورٹی پالیسیوں پر تمام پاکستانیوں بشمول ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ پاکستانی عوام بالخصوص خیبر پختونخواہ کے لوگ، افغان طالبان رجیم کی طرف سے بھارت کی سرپرستی میں ہونے والی وحشیانہ دہشت گردی سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس کے ارادے یا طرز عمل کے بارے میں کوئی وہم نہیں رکھتے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ غیر نمائندہ افغان طالبان رجیم ہے جو گہری اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، اور وہ افغان نسلوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مسلسل جبر کی ذمہ دار ہے، جبکہ اظہار رائے کی آزادی، تعلیم اور نمائندگی کے بنیادی حقوق کو بھی سلب کر رہی ہے۔ چار سالہ اقتدار میں رہنے کے بعد بھی افغان طالبان رجیم بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب بیان بازی کے ذریعے اور بیرونی عناصر کے لیے پراکسی کے طور پر کام کر کے اپنی ہم آہنگی، استحکام اور حکمرانی کی صلاحیت کی کمی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘۔
یہ ہے وہ الفاظ کی جنگ، جس کے بارے میں رپورٹ کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ اس سے 6 نومبر کو استنبول میں شیڈول مذاکرات کی کامیابی کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ مذاکرات میں وقفے کے دوران ہی طالبان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی جانب سے بھی بیانات دیئے گئے۔ یہ پہلی بار تھا، جب افغان طالبان اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی پر سراج الدین حقانی نے لب کشائی کی۔ اگرچہ انہوں نے دونوں برادر ممالک کے مابین امن کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن آخر میں دھمکی بھی لگا گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض حلقے دانستہ یا نادانستہ طور پر آگ اور تنائو کو ہوا دے رہے ہیں۔ افغان قوم امن اور ہم آہنگی کی تمنا رکھتی ہے۔ لیکن اگر کسی نے سرحدی تجاوز یا حملہ کیا تو ملک اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے اور تاریخ اس سلسلے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ سراج الدین حقانی پاک بھارت کشیدگی سے متعلق اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے اصل مدعا گول کرگئے، جو دونوں ممالک کے مابین اس وقت بدترین کشیدگی کا سبب ہے۔ یعنی اسلام آباد کا یہ جائز مطالبہ کہ طالبان رجیم، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روک دے۔
واضح رہے کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کو پاکستان کے خاصے قریب تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ان کے تیور بھی بدلے بدلے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ معلوم کرنے کے لیے جب ان ذرائع سے رابطہ کیا گیا، جو پاکستان اور افغان طالبان تعلقات اور اس کی پس پردہ کہانیوں سے واقفیت رکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان میں حقانی نیٹ ورک سب سے زیادہ پاکستان کے نزدیک تھا۔ تاہم جب سے افغان طالبان برسر اقتدار آئے، سراج حقانی اور انس حقانی کے رویے پاکستان سے بدل گئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سرپرست بن گئے۔ حتیٰ کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں حقانیوں کے زیر اثر مشرقی افغانستان میں ہیں۔ ان میں پکتیکا، پکتیا، کنڑ، ننگرہار اور خوست قابل ذکر ہیں‘‘۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے جب سراج حقانی سے کہا کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں موجود ٹی ٹی پی قیادت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کے دہشت گردوں کو پاکستان میں دہشت گردی سے روکیں یا پاکستان کے حوالے کریں تو جواب میں سراج حقانی نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی یا ان کی حوالگی سے انکار کرتے ہوئے پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا اور خود کو ثالث کے طور پر پیش کیا۔ یہ مذاکرات کچھ عرصے کے لیے ہوئے بھی۔ تاہم ٹی ٹی پی کے مطالبات اس قدر غیر حقیقت پسندانہ اور ناقابل عمل تھے کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کے دوران ٹی ٹی پی کے ہزاروں دہشت گردوں کو ان کے ہتھیاروں سمیت واپس آنے کی اجازت دی گئی اور ان پر کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو سابقہ قبائلی علاقوں سمیت خیبرپختونخوا میں دوبارہ جڑیں قائم کرنے کا موقع ملا اور اس کی قیمت پاکستان آج تک ادا کر رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی پر بار بار احتجاج کے بعد تنگ آکر پاکستان نے گزشتہ برس دسمبر میں بھی صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں فضائی کارروائی کرکے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد سے حقانیوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہونے شروع ہوگئے تھے۔ سراج حقانی کے پاکستان کے خلاف تازہ بیان کا سبب حالیہ جھڑپ کے دوران پکتیکا اور خوست میں حافظ گل بہادر کے ٹھکانوں پر پاکستان کی فضائی کارروائی ہے۔ کیونکہ صرف ٹی ٹی پی نہیں، مشرقی افغانستان میں حافظ گل بہادر گروپ اور اس سے جڑی چھوٹی دہشت گرد تنظیموں نے بھی اپنے کیمپ اور ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔
ماضی کی بات ہے کہ حافظ گل بہادر نے پاکستان میں حملہ نہ کرنے کی ڈیل کر رکھی تھی۔ ملا نذیر اور حافظ گل بہادر گروپ سے مذاکرات کے بعد دونوں کے گروپوں نے دو ہزار آٹھ سے لے کر دو ہزار بارہ تک پاکستان پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں آپریشن سے بچ کر افغانستان نکل جانے کا موقع ملا۔ اب بالخصوص حافظ گل بہادر گروپ کے دہشت گرد بھی سرحد پار سے پاکستان کے خلاف حملوں میں ملوث ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قندھار میں نور ولی محسود کے ٹی ٹی پی دھڑے کو افغان عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد کی حمایت حاصل ہے۔ ننگرہار میں خالد خراسانی کی قیادت میں جماعت الاحرار سرگرم ہے۔ جبکہ حافظ گل بہادر گروپ خوست، پکتیکا اور پکتیا میں حقانی کی حفاظت میں ہے۔
اسی طرح بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کو بھی چھتری فراہم کی گئی ہے۔ جنہیں فنڈنگ، اسلحہ اور رسد کی فراہمی ’’را‘‘ کی طرف سے ’’این ڈی ایس‘‘ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ جبکہ افغانستان میں چھوڑے گئے 7 بلین ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار ان دہشت گرد تنظیموں کو فراہم کیے جارہے ہیں۔ ذرائع کے بقول اینٹلی جنس اداروں کے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں مزید تیزی لانے کے لیے بھارت ایک بار پھر افغانستان میں آٹھ قونصلیٹ کھولنے کی تیاری کر رہا ہے۔ جس کو ’’را‘‘ کا حاضر سروس بریگیڈیئر چلائے گا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos