27 ویں ترمیم میں کیا ہے؟ فیلڈمارشل اب سپریم کمانڈر،18ویں ترمیم واپس

آئین میں ایک نئی ترمیم کی اطلاعات ہیں جس نے سیاسی اور قانونی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔ ایک بحث چل پڑی ہے کہ کیا 18ویں ترمیم کے کچھ حصوں کو رول بیک یاتبدیل کیا جارہاہے ۔قانونی ماہرین کو بھی اس حوالے سے تحفظات ہیں۔افواج پاکستان کی سپریم کمانڈصدرسے آرمی چیف کو دینے پر بھی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ تاہم27ویں ترمیم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے ،یہ 6نومبر کو طے ہوگا،جب پیپلزپارٹی اس معاملے پر مرکزی مجلس عاملہ اجلاس میں غور کرے گی۔بلاول ہائوس کراچی میں بیٹھک نئی ترمیم کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

بڑے نکات

ذرائع کا کہناہے کہ27ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 243میں تبدیلی کی جائے گی تاکہ آرمی چیف کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اس ترمیم کے ذریعے آئینی عدالتوں کے قیام، ایگزیکٹو مجسٹریل طاقت کی ضلعی سطح پر منتقلی، ملک میں یکساں تعلیمی نصاب ، ججز کے تبادلے، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کا معاملہ وفاق میں واپس لانے کی تجاویز منظورکرائی جائیں گی۔ 27ویں آئینی ترمیم میں الیکشن کمشنر آف پاکستان کی تقرری پر ڈیڈ لاک توڑنا بھی شامل ہے۔

ذرائع کا بتاناہے کہ ایک آئینی عدالت یا سپریم کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے قیام سے آئینی تشریحات کا حتمی اختیار بدل جائے گا جس کے چیف جسٹس ہی سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی سے متعلق آرٹیکل 200میں ترامیم،تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے شعبے دوبارہ وفاقی اختیارکے ماتحت لانے کی تجویز شامل ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں تبدیلی کی تجویز دی جارہی ہے۔ این ایف سی فارمولے پر وفاقی اختیارات میں اضافہ ہوگا۔ججز ٹرانسفر میں چیف جسٹس کی اجازت اور متعلقہ جج کی رضامندی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔

آرٹیکل 243میں ترمیم کے معاملے پر یہ سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں شامل کرنے کے بعد صدر کے اختیارات کم ہو جائیں گے؟ اور کیا فیلڈ مارشل افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہوں گے؟۔فیلڈ مارشل کے ماتحت باقی مسلح افواج بھی ہوں گی۔ ایسی صورت میں چیئرمین جوائنٹ چیفس کا عہدہ ختم ہو سکتا ہے۔کچھ حلقوں کا گمان ہے کہ اس آرٹیکل میں ترمیم کے ذریعے سپریم کمان کی تبدیلی ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے نئی مجوزہ ترمیم کو 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی اور وفاقی وسائل میں توازن لانے کا ذریعہ قراردیاہے۔ایک ٹاک شو میں گفتگوکرتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ18ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں ان میں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کی تقسیم پر طویل عرصے بات چیت ہوتی رہی ہے، اس وقت کے حساب سے 18ویں ترمیم میں وسائل کی تقسیم کو بیلنس طے کیا گیا، اب اگر عملی طور پر فرق آیا ہے تو اس پر بات چیت اور غور و فکر کرنے میں کوئی عار نہیں۔

وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل کے مطابق 27ویں ترمیم پر بات چیت جاری ہے لیکن باضابطہ کام ابھی شروع نہیں ہوا۔البتہ ذرائع کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ پیپلزپارٹی کے حوالے کردیاہے۔

پیپلز پارٹی کس حد تک ساتھ دے گی

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تصدیق کی ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے پیپلزپارٹی سے 27ویں ترمیم پر حمایت مانگی ہے۔ بلاول نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6 نومبر کو طلب کرلیا۔اعلامیے کے مطابق یہ اجلاس بلاول ہائوس کراچی میں ہوگا ۔

پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ۔ صوبوں کے اختیارات پر پیپلز پارٹی نے اتفاقِ رائے پیدا کیا تھا اب پیچھے ہٹنامناسب نہیںہوگا اور نہ ایسا ممکن ہے، کوئی بھی ترمیم اگر 18ویں ترمیم کے متصادم ہو گی تو اس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے دوٹوک الفاظ میں 27ویں ترمیم کو 18ویں ترمیم کے خاتمے سے تعبیر کیاہے ۔ان کا کہناہے کہ آئین میں نئی ترامیم اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے مترادف ہوں گی۔انہوں نے اس حوالے سے صوبائی خودمختاری سے متعلق مجوزہ آئینی ترامیم کاحوالہ دیا۔رضاربانی نے خبردار کیا کہ موجودہ نازک سیاسی حالات میں صوبائی خودمختاری سے چھیڑ چھاڑ وفاق پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے، 18ویں ترمیم نے شدت پسند قوم پرستوں کو سیاسی بحث سے باہر کر دیا تھا اور مجوزہ تبدیلیاں انہیں دوبارہ غیر آئینی سرگرمیوں کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ صوبوں کو منتقل کی گئی وزارتوں کو واپس لینا وفاقی حکومت کے لیے مالی بوجھ بنے گا اور مالیاتی اختیارات واپس لینا شراکتی وفاقیت کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔رضاربانی نے تجویز دی کہ اگر وفاقی حکومت اپنے مالی معاملات نہیں سنبھال سکتی تو صوبوں کو تمام ٹیکس جمع کرنے اور وفاقی اخراجات کو مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے پورا کرنے کی اجازت دی جائے۔
27ویں ترمیم کا مجوزہ مسودہ 6 نومبر کو پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے سامنے رکھا جائے گا۔ اجلاس میں اس پر غور اور فکر کے بعد حتمی فیصلہ ہو گا۔شازیہ مری کے مطابق پیپلزپارٹی پارٹی معاملے کو اپنے اصولی موقف کے مطابق دیکھے گی، البتہ عوامی مفاد میں اگر کسی بات پر اتفاق کی گنجائش ہوئی تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔

قانونی ماہرین کی رائے

قانونی ماہرین کو عدلیہ سے متعلق مجوزہ اقدامات پر تحفظات اور خدشات ہیں۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق سربراہ حسن رضا پاشا نے کہاہے کہ اطلاعات کے مطابق حکومت ایگزیکٹو مجسٹریٹس کا نظام دوبارہ متعارف کرانے جا رہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ 1973کے آئین کے تحت عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ رکھا گیا تھا تاکہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار حیثیت میں کام کر سکے، لیکن اب اگر حکومت ان حدود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی تصور ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ اگر کسی نئے قانون کے تحت حکومت کو عدالتی ٹرائل یا جوڈیشل امور میں براہِ راست مداخلت کا اختیار دیا گیا تو یہ نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اس سے عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا۔اگر حکومت اس میں ترمیم کرکے جج کی مرضی یا رضامندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو یہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرے گا۔ کسی جج کو محض ناپسندیدگی یا ذاتی اختلاف کی بنیاد پر ہٹانا یا تبدیل کرنا عدالتی آزادی کے منافی ہوگا۔

انہوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت کو ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے تاکہ ججز کی تعیناتی یا تبادلوں کے عمل میں کسی قسم کی جانبداری یا سیاسی اثر و رسوخ شامل نہ ہو۔

سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجاویز بظاہر اصلاحات کا لبادہ رکھتی ہیں مگر ان کے اثرات عدلیہ کی آزادی اور آئینی توازن پر انتہائی خطرناک ہوں گے۔ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اس نظام کی واپسی ہے جس میں انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود خلط ملط ہو جاتی تھیں۔ ججوں کے تبادلے کا اختیار کسی غیر عدالتی اتھارٹی کو دینابھی ناقابلِ قبول ہے۔ ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔ آئینی عدالت دراصل سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی ایک غیر ضروری توسیع ہے، جو عدلیہ کے اندر تقسیم اور دبائو پیدا کرے گی۔ ایسی عدالت، عدلیہ کے چند ارکان کو خصوصی مراعات دے کر باقی ججوں سے الگ حیثیت دینے کے مترادف ہے، جو ایک طرح کی ادارہ جاتی رشوت اور داخلی تقسیم ہے۔

منظوری کیلئے نمبر گیم

قومی اسمبلی سے ترمیم کی منظوری کے لیے حکمران اتحاد کو واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہے، یعنی آئینی ترمیم کی منظوری پیپلزپارٹی کے بغیر ناممکن ہے۔ایوان میںحکومت کے ساتھ237ارکان کی حمایت ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے 224ووٹ درکار ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کے 125، پی پی پی کے 74ارکان، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی)کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی)کے 4ارکان اتحاد کا حصہ ہیں۔