نواز طاہر:
انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی کا سامنا کرنے والی تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ٹوٹ گئی ہے اور اس کے ٹکٹ ہولڈرز نے پارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹی ایل پی حقیقی کی تیاریاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ گو کہ پارٹی چھوڑنے والوں نے اس حوالے سے ابھی کوئی اعلان یا وضاحت نہیں کی۔ تاہم وہ اس نصب العین پر قائم ہیں کہ وہ تحفظِ ختم نبوت کے پہریدار ہیں اور رہیں گے، جس کیلئے ان کی کوششیں جاری رہیں گی۔
تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کے بعد سے پہلی بار بیرسٹر عثمان مانگٹ اور سو سے زائد ٹکٹ ہولڈرز سامنے آئے ہیں، جنہوں نے پارٹی قیادت کی پالیسیوں اور طرزِ عمل سے اختلاف کرتے ہوئے خود کو پارٹی سے الگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کیا گیا۔
یاد رہے کہ بیرسٹر عثمان مانگٹ ٹی ایل پی کی اصلاحات کمیٹی کے اہم رکن رہے ہیں اور ختم نبوت کے حوالے سے مقدمات کی قانونی پیروی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کو دو ٹوک الفاط میں بتایا کہ ’’تحفطِ ختم نبوت ہر مسلمان پر لازم ہے اور ہمارا نصب العین ہے۔ اس سے کسی طرح کی کوئی بھی پہلو تہی نہیں کرسکتا۔ ہم کل بھی اس کے پاسدار تھے، آج بھی سپاہی ہیں اور کل بھی پاسدار رہیں گے۔ اس پر نہ صرف ہم بلکہ کوئی مسلمان بھی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا اس کا غلط انداز میں بیان اور استعمال کرکے امن کے دین کے پیغام کو پُر تشدد انداز میں استعمال کیا گیا، جو غیر مناسب ہے‘‘۔
لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے پہلے نثار عثمانی ہال میں موجود ایک سو سے زائد ٹکٹ ہولڈرز کی نمائندگی کرتے ہوئے عثمان مانگٹ نے واضح کیا تھا کہ ٹی ایل پی نے بچوں کی اسکول وین کو اغوا کیا۔ سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا، جو دین کا راستہ نہیں اور نہ ہی ایمان و وطن پرستی ہے۔ بلکہ یہ سیدھی سیدھی انارکی ہے، جس کی حمایت کسی صورت نہیں کی جاسکتی۔
ذرائع کے مطابق عثمان مانگٹ سمیت بعض رہنمائوں نے پرتشدد کارروائیوں کے سبب ہی ٹی ایل پی سے علیحدگی اختیار کی اور یہ کہ اب وہ ٹی ایل پی حقیقی بنانے کیلئے متحرک ہیں۔ جس کیلئے رابطے بھی کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول پارٹی سے اعلان تعلقی کرنے والے بیشتر ٹکٹ ہولڈرز بھی ٹی ایل پی حقیقی کے پلیٹ فارم سے پرامن سرگرمیاں جاری کرنے کے حق میں ہیں۔
بیرسٹر عثمان خضر مانگٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پُر تشدد راستہ چھوڑنے اور اصلاحات پر انہیں جماعت میں مزاحمت اور تنقید کا سامنا رہا ہے۔ لیکن یہ راستہ وہ نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کے والد (خضر مانگٹ) پارلیمنٹیرین رہے ہیں اور پُر تشدد سیاست ان کے خاندان کا خاصا نہیں اور نہ طرزِ سیاست ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ’’لبیک یا رسول اللہ کسی ایک کی میراث نہیں اور نہ ہی کوئی اس پر قابض ہوسکتا ہے۔ یہ ہر مسلمان کا باسعادت نعرہ ہے۔ جسے لگانے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح ہم یہ نعرے بلند کرتے رہیں گے۔ لیکن اس نعرے سے پُر تشدد کارروائیوں کی حمایت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس نعرے کا یہ درس ہے۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’ٹی ایل پی کے بانی علامہ خادم حسین رضوی کی پہلی برسی پر کروڑوں روپے اکٹھے ہوئے۔ اس پر ٹیکس ادا کرکے انہیں قانونی شکل دی جاسکتی تھی۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اس پر تبصرہ نہیں کروں گا اور نہ ہی ذاتیات کی بات کروں گا۔ لیکن قانون کی بات یہی ہے کہ ٹیکس ادا کرکے قانونی شکل دی جاتی۔ کچھ اپنی ضروریات اور کچھ تحریکی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس جماعت میں جماعت اور تنظیم والی کوئی بات نہیں تھی۔ فیصلے شوریٰ کیسے کرتی تھی، یہ الگ معاملہ ہے۔
شوریٰ کے اراکین سے تشدد کا راستہ چھوڑنے کی بات کی گئی تو بُرا منایا گیا۔ ابھی تک سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی جاتی ہے۔ لیکن حق بات کہنے پر اس ٹرولنگ سے فرق نہیں پڑتا۔ احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ بھی شوریٰ میں نہیں ہوا تھا۔ شوریٰ کو معلوم ہی نہیں کہ سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے۔ وہ متشدد راستہ چھوڑنے کو تیار نہیں‘‘۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos