اسلام آباد میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے اثرات اُس وقت نمایاں ہوگئے جب جمعے کے روز سپریم کورٹ میں اس ترمیم کو چیلنج کیا گیا، جبکہ دوسری جانب انتظامی سرگرمیوں سے یہ عندیہ ملا کہ وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court – FCC) کے قیام کی تیاری شروع ہو چکی ہے — ایک ایسا ادارہ جو مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے تحت وجود میں آئے گا۔
ذرائع کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامی تبدیلیوں سے اشارہ ملتا ہے کہ مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کو ممکنہ طور پر وفاقی شرعی عدالت (FSC) کی عمارت میں منتقل کیا جا سکتا ہے، جبکہ اس سلسلے میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کو ہائی کورٹ کی عمارت کی تیسری منزل پر منتقل کر دیا جائے۔
اس وقت وفاقی شرعی عدالت آٹھ ججوں کی مجاز تعداد کے مقابلے میں صرف تین ججوں، بشمول چیف جسٹس، پر مشتمل ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی کہ شرعی عدالت کے تمام ججوں کو ہائی کورٹ کی ایک منزل پر بآسانی جگہ دی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے عدالتی شعبے کی جانب سے 7 نومبر کو جاری کردہ ایک آفس آرڈر میں ریکارڈ مینجمنٹ سے متعلق اندرونی تنظیم نو کی نشاندہی کی گئی، جبکہ تیسری منزل خالی کرانے کا عمل بھی جاری ہے۔
یہ تمام پیش رفت سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث آئی، جہاں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’عمارت کی تبدیلی سے ہماری اتھارٹی کم نہیں ہو جائے گی۔
سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سینئر وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ اُنہیں دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا۔
وکیل نے جواب دیا کہ ’’کچھ وقت لگے گا، تاہم میری خواہش ہے کہ کیس آج ہی نمٹ جائے کیونکہ میں شرعی عدالت کی عمارت کے اندر کھڑے ہو کر دلائل دینا نہیں چاہتا۔‘‘
فیصل صدیقی نے مزید کہا، اگر کسی عمارت کا قبضہ لینا ہی ہے تو صرف شرعی عدالت کی عمارت کیوں؟ ساتھ والی عمارت (وزیراعظم سیکریٹریٹ کی طرف اشارہ) کیوں نہیں؟
اس پر جسٹس مندوخیل نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’لگتا ہے کہ آپ کے حق میں گزشتہ رات کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔‘‘
وکیل نے جواب دیا کہ انہیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔ جسٹس مندوخیل نے تبصرہ کیا، اگر یہی جذبہ ہے تو پھر فکر کیسی؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا، ہم آئین کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں۔
فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں جج صاحبان کتنے باوقار نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’سب جانتے ہیں کہ شرعی عدالت کیوں قائم کی گئی تھی۔‘‘
اس موقع پر جسٹس مندوخیل نے پھر دہرایا کہ ’’عمارت کی تبدیلی سے عدالت کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
دوسری جانب، بیرسٹر علی طاہر نے ایک علیحدہ درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے مجوزہ قانون، بل یا ترمیم کو غیر آئینی قرار دے جو سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184(3) یا ہائی کورٹس کے آرٹیکل 199 کے تحت حاصل اختیارات کو محدود، معطل یا ختم کرے۔
درخواست میں وفاقی حکومت، کابینہ، پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کو ہدایت دینے کی درخواست کی گئی کہ حتمی فیصلے تک وہ کوئی ایسا قانون سازی، انتظامی یا عملی اقدام نہ کریں جو مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم یا اس سے متعلق کسی بل کی منظوری یا عملدرآمد کی طرف لے جائے۔
درخواست گزار کے مطابق، آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کا بنیادی دائرہ اختیار آئین کا ناقابل تنسیخ اور غیر قابل ترمیم حصہ ہے، جسے کسی ترمیم یا قانون سازی کے ذریعے محدود نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست میں یہ بھی مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے متوازی یا ان کے متبادل کے طور پر کسی نئی ’’آئینی عدالت‘‘ کے قیام کی کوئی بھی کوشش آئین کے آرٹیکلز 175 سے 191 تک کے منافی ہوگی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos