اسلام آباد: 27ویں آئینی ترمیم پر غور کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹیوں کے اجلاس کے دوران مسلح افواج کےسربراہوں کی تقرری سمیت مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ منظور کرلیا،اسے آج صبح سینیٹ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی نے 49 ترامیم کی شق وار منظوری دے دی، کابینہ سے منظور شدہ ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ آج ایوان میں پیش کر دیا جائے گا۔
دوپہر کے وقفہ کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر وزیر قانون نے وزیراعظم کے فوجداری استثنیٰ والی ترمیم واپس لے لی، یہ کمیٹی مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کی شقوں کا جائزہ لینے کے بعد شق وار منظوری دے گی۔
اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کمیٹی روم نمبر 5 میں ہو رہا ہے، اجلاس میں وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ، وزیر مملکت برائے ریلوے و خزانہ بلال اظہر کیانی، چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون فاروق ایچ نائیک، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، پیپلزپارٹی کے نوید قمر شریک ہیں۔
منظور کاکڑ، ہدایت اللہ، بشیر احمد ورک، علی حیدر گیلانی، طاہر خلیل سندھو، سائرہ افضل تارڑ سینیٹر شہادت اعوان کمیٹی اجلاس میں شامل ہیں۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کی چاروں ترامیم مسترد
اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی چاروں ترامیم مسترد کردی گئیں، ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے متعلق ارٹیکل 140 اے میں ترامیم کو مسترد کردیا گیا جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی صوبائی نشستوں میں اضافے کی ترامیم بھی مسترد کردیا گیا۔
مسلم لیگ ق کی ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم سے متعلق ترمیم بھی مسترد جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی خیبر پختونخواہ صوبے کا نام تبدیل کرنے کی ترامیم بھی مسترد کردی گئی۔
اجلاس کے دوران آئینی عدالت کے قیام سے متعلق مشاورت مکمل کرلی گئی، مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں آرٹیکل 243 اور آرٹیکل 200پر مشاورت جاری ہے، مشترکہ پارلیمانی کمیٹی 27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ آج منظور کریگی۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام شقوں پر آج میٹنگ ہوگی، پوری امید ہے کہ آج اس کو حتمی شکل دے دیں،ہر جماعت کو رائے دینا کا حق حاصل ہے، آج تمام جماعتوں کی آراء کو دیکھا جائے گا،جس جماعت کی جو رائے ہوگی اس پر غور کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ن لیگ، ایم کیو ایم کی جو جو تجاویز ہونگی اس کو دیکھا جائے گا، اکثریتی جو رائے آئے گی اس کے مطابق فیصلہ ہو گا، تمام فیصلوں کو ایوان میں پیش کیا جائے گا امید ہے شام پانچ بجے تک فائنل کر لیں گے۔
ذرائع نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام، آرٹیکل 175-اے سے لے کر آرٹیکل 175-ایل تک 12 شقوں پر مشاورت مکمل کرلی گئی۔
اس کے علاوہ ذرائع نے کہا کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد بڑھانے، سپریم جوڈیشل کونسل، سپریم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو پر بھی مشاورت بھی مکمل کرلی گئی۔
ذرائع کے مطابق آرٹیکل 243، آرٹیکل 200 اور آرٹیکل 248، آرٹیکل 200، ججز کے تبادلوں سے متعلق مشاورت جاری ہے۔
اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن نے وزیراعظم کے استثنیٰ سے متعلق شق واپس لے لی، وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ وزیر اعظم کے پیغام سے کمیٹی ارکان کو آگاہ کردیا، اجلاس میں وقفہ کردیا گیا۔
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے 85 فیصد کام مکمل کر لیا ہے، امید ہے آج شام تک کمیٹی اپنا کام مکمل کر لے گی، وزیر اعظم کل آذربائجان تھے رات کو واہ واپس آئے ہیں، وزیر اعظم نے صبح ہی استثنیٰ سے متعلق تجاویز سے منع کر دیا تھا۔
وزیر قانون نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور مجھے صبح وزیر اعظم نے بلایا تھا، صدر اور دیگر عہدوں کیلئے استثنیٰ سے متعلق فنکشنز مختلف ہیں، فنکشنز مختلف ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم ایسا کوئی استثنیٰ نہیں چاہتے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جے یو آئی کے اراکین کل کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے تھے، جے یو آئی اراکین نے کمیٹی کو پارٹی پالیسی سے آگاہ کیا تھا ، میرے خیال میں پارلیمانی جماعتوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہیے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے آرٹیکل 209تک کی شقوں پر جائزہ مکمل کر لیا، کمیٹی وقفہ کے بعد دیگر آرٹیکل کا شق وار جائزہ لے گی، وقفہ کے بعد سیاسی جماعتوں کی تجاویز پر بھی غور ہوگا۔
وفقے کے بعد اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 200میں ترامیم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے منظور کرلی گئیں، مجوزہ ترمیم کے مطابق صدر مملکت ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ٹرانسفر کرنے کے مجاز ہونگے، ہائی کورٹ سے ججز کے تبادلے کی صورت میں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبران ہونگے۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق ججز کے تبادلے کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوگا، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا، ایسے کسی جج کا تبادلہ نہیں کیا جائیگا جو کسی دوسری عدالتی کی سنیارٹی پر اثر انداز ہوکر چیف جسٹس سے سنیئر ہو۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سنیئر نہیں ہوگا، ٹرانسفر سے انکار پر جج کو ریٹائر کر دیا جائیگا، ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقرر مدت تک کی پنشن اور مراعات دی جائینگی، وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے سے انکار پرسپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کا متعلقہ جج ریٹائر تصور ہوگا۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقررہ مدت تک پنشن اور مراعات ججز کو دی جائیں گی۔
پی ٹی آئی، جے یو آئی ف، ایم ڈبلیو ایم اور پی کے میپ کے رہنما اجلاس میں شریک نہیں ہورہے، قومی اسمبلی سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے کل بائیکاٹ کیا تھا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos