فوٹو سوشل میڈیا
فوٹو سوشل میڈیا

اسلام آباد کچہری میں ایک دھماکہ ہوا یا دو- تحقیقات جاری

اسلام آباد کچہری کے باہر خود کش دھماکے کی تحقیقات میں پتاچلا ہے کہ حملہ آور نے کچہری کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن سیکیورٹی اہلکار نے اسے اجازت نہیں دی ،دھماکہ خیز مواد کی مقدار 8کلوگرام تھی۔تفتیش میں  مصنوعی ذہانت سے مدد لی جارہی ہے۔ دہشت گردی کی اس ہولناک واردات میں ایک دھماکہ ہوا یا دو ، اس پر بھی اب تک واضح معلومات نہیں۔تاہم یہ نقطہ تحقیقات کا مرکز ہے۔

 

وفاقی دارالحکومت میں دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کا عمل آگے بڑھ رہاہے۔ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آچکی ہے جس میں خود کش بمبار کو پولیس موبائل کے قریب دھماکہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

 

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے مطابق خود کش حملہ آور کچہری کے اندر داخل ہونے کے بعد دھماکہ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے اندر جانے نہیں دیا گیا۔محسن نقوی کے مطابق خود کش حملہ آور نے پندرہ منٹ تک انتظار کرنے کے بعد کچہری کے باہر کھڑی ایک پولیس موبائل کے پاس دھماکہ کیا۔

 

کورٹ کمپلکس کے باہر سکیورٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار نے، جو خودبھی زخمی ہوئے، اس سر کو شناخت کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے کورٹ کمپلکس میں جانے کی کوشش کی لیکن جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی عدالت میں جانا چاہتا ہے تو اس نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جس پر اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

 

انسپکٹر جنرل اسلام آباد علی ناصر رضوی نے کہا ہے کہ کچہری پر حملہ آور ایک ہی تھا،لیکن ان کا یہ بھی کہناہے کہ ایک موٹر سائیکل اور گاڑی کو مشکوک تصور کیا جا رہا ہے۔

 

آئی جی اسلام آباد پولیس نے بتایا ہے کہ حملے میں آٹھ کلو گرام تک بارودی مواد اور بال بیرنگز استعمال ہوئے انھوں نے کہا کہ اے آئی کی مدد سے 92 فوٹیجز اکٹھی کی گئی ہیں۔

 

آئی جی کے مطابق اس دہشت گردی کے ہینڈلرز سے متعلق تصدیق جاری ہے۔انھوں نے کہا کہ کیمروں سے ملنے والی فوٹیجز سے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ فارنزک، سی ٹی ڈی، انویسٹی گیشن، سیف سٹی اور حساس ادارے شواہد کا جائزہ لے رہے ہیں۔

 

اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے اعضا کے نمونے شناخت کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔ شناخت معلوم کرنے کے لیے ’نادرا سے بھی تصدیق کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

 

ایک نجی ٹی وی چینل کے مقامی صحافی نےبتایا کہ وہ پارکنگ میں موٹر سائیکل کی جانب بڑھ رہے تھے جب انھوں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی۔انھوں نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل کورٹ کمپلکس کے مرکزی دروازے پر کھڑی ہوئی پولیس وین سے ٹکرائی ہے جس سے دھواں نکل رہا تھا۔

 

مقامی صحافی کے مطابق چند منٹوں کے بعد ایک اور زور دار دھماکہ پولیس وین کے آگے کھڑی ہوئی ایک سفید رنگ کی کار میں ہوا۔

 

صحافی کا کہنا تھا کہ دونوں دھماکے اتنے شدید تھے کہ کورٹ کمپلکس میں متعدد عدالتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ انھوں نے متعدد انسانی اعضا بکھرے ہوئے دیکھے جن میں ان کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی شامل تھا۔

 

 

اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلکس میں 70 سے زیادہ عدالتیں ہیں اور جس وقت یہ دھماکے ہوئے اس وقت تمام عدالتوں میں سائلین اور وکلا اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آئے ہوئے تھے۔

 

سندھ اور پنجاب میں الرٹ

 

اسلام آباد میں خودکش حملے کے بعد سندھ کے وزیرِ داخلہ ضیا الحسن لنجار صوبے بھر میںپولیس کو ’آئندہ احکامات تک الرٹ‘ رہنے کے احکامات جاری کر دیے
ہیں۔

محکمہ داخلہ سندھ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے داخلی و خارجی پوائنٹس، اہم شاہراہوں اور سڑکوں پر جانچ پڑتال اور نگرانی کو مزید سخت کردیاگیاہے۔ سندھ کے وزیرِ داخلہ نے آئندہ دنوں اور مہینوں میں اہم ایونٹس کی سکیورٹی پلانز کا ازِ سرنو جائزہ‘ لینے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

 

صوبہ پنجاب کے ’حساس، اہم اور گنجان آباد علاقوں‘ میں بھی سکیورٹی بڑھانے کی ہدایت دی گئی ہے۔صوبائی محکمہ داخلہ نے آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، تمام آر پی اوز، سی پی اوز اور ڈی پی آوز کو ’حساس، اہم اور گنجان آباد علاقوں میں سکیورٹی بڑھانے‘ کی ہدایت دی ہے۔

 

پنجاب بھر میں کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور ریسکیو اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دیا گیاہے۔

 

صوبے میں حفاظتی انتظامات سخت کرنے کے لیے جو مراسلہ جاری کیاگیا ہےاس میں ہدایت دی گئی ہے کہ انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مربوط اور فعال اقدامات اٹھائے جائیں۔

 

محسن نقوی نے کچہری کے باہر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دو ہفتے بعد کوئی بھی گاڑی ای ٹیگ کے بغیر اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکے گی۔

 

تاحال یہ واضح نہیں کہ اس واقعے میں کون سا گروہ ملوث ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک جماعت الاحرار نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ افغان حکومت نے بھی ایک بیان میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔