کابل کی افغان تاجروں کو پاکستان سے کاروباری روابط ختم کرنے کی ہدایت

کابل کی عبوری حکومت نے افغان تاجروں کو پاکستان کے بجائے متبادل منڈیا ں تلاش کرنے کی ہدایت کردی۔ نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے صنعتکاروں اور تاجروں سے ملاقات کے دوران گفتگو میں کہا کہ تمام افغان تاجر اور صنعت کارمتبادل تجارتی راستوں کا رخ کریں۔ پاکستان کے ساتھ منسلک تجارتی راستوں نے نہ صرف ہمارے تاجروں کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ بازاروں اور عام لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

 

ملابرادرکا کہناتھاکہ میں تمام تاجروں سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ جلد از جلد درآمدات اور برآمدات کے متبادل آپشنز پر عمل درآمد کریں۔برادر نے خبردار کیا کہ اس نوٹس کے بعد اگر کوئی پاکستان کے ساتھ تجارت جاری رکھے گا تو امارت اسلامیہ ایسے تاجروں کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی اور نہ ان کی بات سنے گی۔

 

یہ پیش رفت پاکستان کی طرف سے طورخم بارڈر سمیت تمام 8 کراسنگ پوائنٹس کی بندش کو ایک مہینہ مکمل ہونے پر سامنے آئی ہے۔ گذشتہ روز افغان میڈیا نے بتایا تھاکہ ایک مہینے سے افغان تاجروں کو بھاری مالی نقصان ہورہاہے۔ اس نقصان کا حجم یومیہ ڈیڑھ ملین ڈالر بتایاگیاہے۔

 

ملابرادرنے پاکستان سے درآمد کی جانے والی ادویات کے ناقص معیار پر تنقید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ادویات کے درآمد کنندگان کے پاس تین ماہ کا وقت ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹس بند کر کے وہاں سے کاروباری لین دین ختم کریں۔ہمارے شعبہ صحت کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان سے کم معیار کی ادویات کی درآمد ہے۔ میں تمام ادویات کے درآمد کنندگان سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر سپلائی کے متبادل راستے تلاش کریں۔

 

انہوں نے یقین دلایا کہ افغانستان کو اب درآمدات اور برآمدات کے لیے متبادل تجارتی راستوں تک رسائی حاصل ہے اور علاقائی ممالک کے ساتھ اس کے اقتصادی تعلقات ماضی کے مقابلے میں نمایاں طور پر پھیل چکے ہیں۔امارت اسلامیہ افغانستان علاقائی اور عالمی رابطوں کے لیے نئے متبادل راستے قائم کرنے اور موجودہ راستوں کو تکنیکی اور بنیادی ڈھانچے کے نقطہ نظر سے مزید معیاری اور موثر بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔

 

اکتوبرکے آخری ہفتے میں کابل حکومت نے کہاتھاکہ ہم چار سال سے متبادل تجارتی راستے تلاش کررہے ہیں تاہم اب یہ کوششیں تیزکردی گئی ہیں۔

 

برادر نے افغان تاجروں اور صنعت کاروں سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ افغانستان کو اکثر سیاسی دباؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تجارتی تعلقات اور مہاجرین کے مصائب کو غیر معقول سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

 

ملابرادر نے زور دے کر کہا کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تجارت کی بات کی جائے تو تمام ممالک ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ اگر وہ اس بار افغانستان کے ساتھ تجارتی راستے دوبارہ کھولنا چاہتا ہے، تو اسے اس بات کی پختہ ضمانت فراہم کرنی ہوگی کہ راستے کسی بھی صورت میں دوبارہ کبھی بند نہیں ہوں گے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔