سوہارتو۔فائل فوٹو

قتل عام اور بدعنوانی کے الزامات سے قومی ہیرو تک،ایک آمرکی کہانی

انڈونیشیا میں 2004کے انتخابات جمہوریت کی طرف سفر کا نکتہ آغازتھا۔ ساتھ ہی 4دہائیوں تک آنسو ئوں پرقدغن کا اختتام بھی۔

 

1998میں جنرل سوہارتو کے طویل اقتدار کا خاتمہ ہونے کے 6سال بعد،32برس میں پہلی بار انڈونیشیائی عوام کو اپنے دکھ بیان کرنے ،رونے اور کھل کربات کرنے کا موقع ملا۔

 

2004ء کے پہلے براہ راست صدارتی اتخابات کے دوران جکارتہ میں برطانوی نشریاتی ادارے کے نامہ نگارکا کہنا تھا کہ انڈونیشیا کی موجودہ صورتحال کے بارے میں پروگرام بنانا اس لحاظ سے منفرد تجربہ تھا کہ انہوں نے جس کسی سے بھی بات کی وہ ماضی کے ذکر پربے قابو ہو کرآنسوبہانے لگا۔

 

ایک عورت نے روتے ہوئے کہا کہ تقریبا چالیس سال قبل انیس سو پینسٹھ میں ان کے والد کی گمشدگی کے بعد وہ ان کے پہلے آنسو تھے۔نامہ نگارنے لکھاکہ وہ بیسویں صدی کا ایسا قتل عام تھا جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

 

معاملہ تیس ستمبر انیس سو پینسٹھ کی رات کو ایک مبینہ بغاوت کی ناکام کوشش سے شروع ہوا تھا۔چھ جرنیلوں کو گھروں سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور دارالحکومت کے باہرلے جایا گیا۔ ان کو تشدد کے بعد ہلاک کر کے لاشیں کنویں میں پھینک دی گئی تھیں۔

 

کہاجاتاہے کہ اس وقت شروع ہونے والے فسادات میں پندرہ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور اس سے بھی زیادہ گرفتاری اور تشدد کا نشانہ بنے۔

 

یہ انڈونیشیا میں قتل و غارت کی ان کہی کہانی ہے۔ جرنیلوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد باغیوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے اقدامات شروع کئے۔ اس وقت افواج کے سربراہ جنرل سوہارتو آمر کا کردار اداکرنے کے لیے تیار تھے۔

 

جنرل سوہارتونے باغیوں کو اپنی کارروائیاں بند کرنے کا حکم دیا اور سب رک گیا۔ ایک دن کے اندر سب کام مکمل ہو چکا تھا۔اس کے بعد قتل عام شروع ہوا۔اس دور کی سب سے معروف وضاحت یہ ہے کہ صدر سوہارتو نے خود ہی یہ بات پھیلائی کہ ناکام بغاوت کمیونسٹوں کی کارروائی تھی۔

 

اس وقت چین اور سوویت یونین کے بعد انڈونیشیا میںکمیونسٹ گروہ سب سے زیادہ طاقتور تھا۔فوج میں سوہارتو اور ان کے ہم خیال، کمیونسٹوں کا ایسا ہی بندو بست چاہتے تھے جیسے ان کو مبینہ ناکام بغاوت کے بعد ٹھکانے لگاکر کیاگیا۔

 

دیکھتے ہی دیکھتے کمیونسٹ مخالف گروہ جکارتہ کی سڑکوں پر نکل آئے۔ دیہات میں فوج کی مدد سے لوگ پرانے بدلے چکا رہے تھے۔ہمسائے ایک دوسرے پر ایسے پل پڑے جس کی مثال مشرق بعید کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔بالی میں کمیونسٹوں کے خاموش مجمعوں کی پھانسی گھاٹ کی طرف مارچ کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔

 

شہروں اور قصبوں میں تعلیم یافتہ افراد کے خلاف بھی ایک لہر چلی ۔ ہزاروں افراد کو گھروں سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

 

اٹھارہ ماہ کے اندر جنرل سوہارتو نے نہ صرف کمیونسٹ پارٹی کا خاتمہ کر دیا بلکہ انڈونیشیا کو آزادی دلانے والے صدر سوکارنو سے اقتدار بھی چھین لیا۔اس کے بعد صدر سوہارتو کے عہداقتدار میں32سال تک انڈونیشیا میں انیس سو پینسٹھ کے واقعات پر کھلے عام بات کرنے پرسخت پابندی رہی۔

 

انسانی حقوق اور اظہارِ رائے کی آزادی پر سخت پابندیاں عائدتھیں۔ فوج نے مخالفین اور علیحدگی پسند تحریکوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کیں۔

 

یہی جنرل سوہارتو گذشتہ دنوں انڈونیشیا میںسرکاری طورپر قومی ہیروقراردیئے گئے ہیں۔

 

سوہارتو کا نام 10 اعزاز یافتگان میں شامل کیا گیا جنہیں قومی ہیرکا درجہ دیا گیا ہے۔یہ فہرست 200سے زائد افراد پر مشتمل ہے، جن میں انڈونیشیا کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر، خواتین کے حقوق کی ممتاز علمبردار، اسلامی اسکالرز اور حریت پسند بھی شامل ہیں۔

 

امریکی نشریاتی ادارے نے لکھاہے کہ کئی دہائیوں تک، وہ ایک ایسا ڈکٹیٹر تھا جس کے امریکی حمایت یافتہ ہونے کا تاثر قائم رہا۔سوہارتو کی حکومت نے سرد جنگ کے دور میں قتل عام کا ارتکاب کیا۔اس پر اپنے خاندان کو عیش و عشرت فراہم کرنے کے لیے خطیر خردبردکرنے کا بھی الزام تھا۔

 

امریکی میڈیا کے مطابق انڈونیشیاکے سابق مرد آہن کو بعد از مرگ قومی ہیرو نامز کرنے کا اقدام انسانی حقوق کارکنوں اور متاثرین کے احتجاج کا باعث بنا جنہوں نے اس ایوارڈ کو ایک ایسی جابرانہ حکومت کے لیے کلین چٹ کے طورپر مستردکردیاجس نے کھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

 

ایوارڈزکی تقریب سے پہلے، جکارتہ میں اس اعلان کے خلاف احتجاج ہوا، اس دوران اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھا تھا: انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والاسوہارتو ہیرو نہیں ۔انسانی حقوق اداروں نے اس اعزاز پر تنقید کی، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش سے تعبیرکیا ۔

 

ہیومن رائٹس واچ کے انڈونیشیا ئی محقق آندریاس ہارسونو نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سوہارتو کا احتساب کرنے میں ناکامی تاریخ کومسخ کرنے کے مترادف ہے۔تقریبا ً500شہری سماجی تنظیموں، کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے صدرپرابوو کو ایک خط بھیجا، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سوہارتو کو قومی ہیرو قرار دینے کے فیصلے سے باز رہیں۔

 

اس اعزازکو خاص طور پر سوہارتوکے دور حکومت میں تشدد اور ظلم و ستم کاشکار بہت سے لوگوں اور متاثرین کے خاندانوں کو ڈنک مارنے جیساکہاگیاہے۔ٍیہ بھی کہاگیاکہ سوہارتو کو قومی ہیرو قرار دینا غیر اخلاقی عمل ہے اور اس سے مجرموں کو استثنا کا تاثر ملتا ہے۔

 

انڈونیشیا میں سوہارتوکے وفاداروں اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ سیاسی وارثوں نے بھی ان کی ساکھ بہتربنانے کی کوشش کی ہے، انہیں ایک مضبوط رہنما کے طور پر پیش کیا جوملک میں استحکام لایا۔کیمسوک جیسی جگہوں پر، یوگیکارتا کے قریب ایک گاوں جہاں وہ پیدا ہوا تھا، اس کی تصویر ہر جگہ ہے ،میوزیم کی یادگاروں سے لے کر اس کی زندگی کی یادگاری ٹی شرٹس تک،جن پر اس کے مسکراتے چہرے کی تصویر چھپی ہوتی ہے۔

 

انڈونیشیا میں سوہارتو کی حکمرانی پر بحث آج بھی بڑی حد تک ممنوع ہے۔

 

سابق آمرکی بیٹی سیتی ہردیجنتی رکمانا نے صحافیوں سے گفتگومیں کہاکہ ہمیں اپنا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں ،ان کا کہناتھاکہ براہِ کرم یاد رکھیں میرے والد نے نوجوانی سے بڑھاپے تک اس ملک اور عوام کے لیے کتنی جدوجہد کی۔

 

حکومت نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، یہ ہمارے بزرگوں، خصوصا رہنماوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ ہے، جنہوں نے بلاشبہ قوم اور ملک کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

 

سابق صدر سہارتو کو یہ اعزاز انڈونیشیا کے موجودہ رہنما پرابوو سوبیانتو نے ایک تقریب میں دیا ، جو خود ایک سابق جنرل کے طور پر متنازع شخصیت ہیں جنہوں نے وردی میں رہتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا کیا۔پرابو سوہارتو کے سابق دامادبھی ہیں۔

 

تقسیم اعزازات کی تقریب میں اناونسر نے کہا،’’وسطی جاوا صوبے کی ایک ممتاز شخصیت، آزادی کی جدوجہد کے ہیرو، جنرل سہارتو آزادی کے دور سے ہی نمایاں تھے‘‘۔

 

حاجی محمد سوہارتو 1921ء میں پیداہوئے ۔ فوج میں گئے ،جنرل کے عہدے تک پہنچے اور پھر 1965ء میں خون کی ہولی کھیلی۔ فوج کے زیر نگرانی مبینہ کمیونسٹوں کا ملک گیر صفایا ہوا، انسانی حقوق تنظیموں اور مورخین کا اندازہ ہے کہ اس قتل عام کے دوران 5سے 10لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔

اس واقعے کی کبھی سرکاری طور پر تحقیقات نہیں ہوئیں۔

 

2017میں ظاہر کیے گئے سرکاری دستاویزات کے مطابق امریکہ نے کمیونسٹ مخالف قتل عام کی حمایت کی، کمیونسٹ پارٹی کے سینئر عہدیداروں کی فہرستیں، سازوسامان اور رقم فراہم کی ۔

 

2016 میں، ہیگ میں بین الاقوامی ٹربیونل نے قراردیاتھا کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا بھی 1965کے اس اجتماعی قتل میں ملوث تھے۔

 

سہارتونے میں1967ء میں باضابطہ طور پر انڈونیشیا کے صدر کا عہدہ سنبھالا ۔اقتدارکے دوران اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاون کیا، مشرقی تیمور، آچے، مغربی پاپوا اور مالوکو جزائر سمیت علاقوں پر اپنی حکمرانی قائم کی۔ان میں سے کچھ علاقوں پر مغربی اتحادیوں کی خاموش حمایت کے ساتھ حملہ کیا گیا۔

 

سوہارتونے طویل حکمرانی میں انڈونیشیا کو معاشی طاقت بھی بنایا اور ملک میں سیاسی استحکام پیداکیا۔ان کی حکومت کا خاتمہ 1998میں اس وقت ہوا جب ایشیائی مالیاتی بحران نے ملک کو معاشی بدحالی سے دوچارکر دیا، اس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور سہارتو کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا ۔

 

اقتدارسے رخصتی کے بعد سہارتو کے بچوں پر مقدمہ چلایا گیا، اور سب سے چھوٹے بیٹے کو بدعنوانی کا مجرم قرار دیا گیا۔ 2015میں، سپریم کورٹ نے سوہارتوکے خاندان کو غبن کی گئی کروڑوں کی رقم ریاست کو واپس کرنے کا حکم دیالیکن جنرل نے خود کوکبھی جواب دہ نہیں بنایا۔

 

سوہارتو اور ان کے خاندان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں بدعنوانی سے تقریباً 45ارب ڈالر جمع کیے۔ تاہم یہ الزامات کبھی ثابت نہیں ہو سکے۔

2000میں پہلی بار سوہارتو پر بدعنوانی کے مقدمات چلانے کی کوشش کی گئی، مگر ان کے وکیل ہمیشہ یہ دلیل منوانے میں کامیاب رہے کہ سوہارتو ناساز طبیعت کے سبب سماعت کا سامنا نہیں کر سکتے۔

 

زندگی کے آخری دور میں صحت کے مسائل کی وجہ سے، وہ 2008میں بغیر کسی مقدمے کے چل بسے۔86سالہ سوہارتونے آخری دم تک کسی بھی غلط کام سے انکار کیا بلکہ ایک موقع پر غبن کے الزامات کو’’غیبت اور بہتان‘‘قرار دیا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔